سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: نذر اور قسم (حلف) کے احکام و مسائل
The Book on Vows and Oaths
7. باب مَا جَاءَ فِي الاِسْتِثْنَاءِ فِي الْيَمِينِ
7. باب: قسم میں ان شاءاللہ کہنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Making Exceptions In Oath
حدیث نمبر: 1531
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان , حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث , حدثني ابي , وحماد بن سلمة , عن ايوب , عن نافع , عن ابن عمر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من حلف على يمين فقال: إن شاء الله , فقد استثنى , فلا حنث عليه " , قال: وفي الباب , عن ابي هريرة , قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن , وقد رواه عبيد الله بن عمر , وغيره , عن نافع , عن ابن عمر , موقوفا , وهكذا روي عن سالم , عن ابن عمر رضي الله عنهما , موقوفا ولا نعلم احدا رفعه غير ايوب السختياني , وقال إسماعيل بن إبراهيم: وكان ايوب احيانا يرفعه , واحيانا لا يرفعه , والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم , ان الاستثناء إذا كان موصولا باليمين , فلا حنث عليه , وهو قول سفيان الثوري , والاوزاعي , ومالك بن انس , وعبد الله بن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ , حَدَّثَنِي أَبِي , وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَقَالَ: إِنْ شَاءَ اللَّهُ , فَقَدِ اسْتَثْنَى , فَلَا حِنْثَ عَلَيْهِ " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ , وَقَدْ رَوَاهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ , وَغَيْرُهُ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , مَوْقُوفًا , وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ سَالِمٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , مَوْقُوفًا وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ غَيْرَ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ , وقَالَ إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ: وَكَانَ أَيُّوبُ أَحْيَانًا يَرْفَعُهُ , وَأَحْيَانًا لَا يَرْفَعُهُ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , أَنَّ الِاسْتِثْنَاءَ إِذَا كَانَ مَوْصُولًا بِالْيَمِينِ , فَلَا حِنْثَ عَلَيْهِ , وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَالْأَوْزَاعِيِّ , وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی امر پر قسم کھائی اور ساتھ ہی ان شاءاللہ کہا، تو اس قسم کو توڑنے کا کفارہ نہیں ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن ہے،
۲- اس حدیث کو عبیداللہ بن عمرو وغیرہ نے نافع سے، نافع نے ابن عمر سے موقوفا روایت کیا ہے، اسی طرح اس حدیث کو سالم بن علیہ نے ابن عمر رضی الله عنہما سے موقوفاً روایت کی ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ ایوب سختیانی کے سوا کسی اور نے بھی اسے مرفوعاً روایت کیا ہے، اسماعیل بن ابراہیم کہتے ہیں: ایوب اس کو کبھی مرفوعاً روایت کرتے تھے اور کبھی مرفوعاً نہیں روایت کرتے تھے،
۳- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۴- اکثر اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ جب قسم کے ساتھ «إن شاء اللہ» کا جملہ ملا ہو تو اس قسم کو توڑنے کا کفارہ نہیں ہے، سفیان ثوری، اوزاعی، مالک بن انس، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔

وضاحت:
۱؎: اس حدیث کی رو سے قسم کھانے والا ساتھ ہی اگر «إن شاء اللہ» کہہ دے تو ایسی قسم توڑنے پر کفارہ نہیں ہو گا، کیونکہ قسم کو جب اللہ کی مشیئت پر معلق کر دیا جائے تو وہ قسم منعقد نہیں ہوئی، اور جب قسم منعقد نہیں ہوئی تو توڑنے پر اس کے کفارہ کا کیا سوال؟۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأیمان 11 (3261)، سنن النسائی/الأیمان 18 (3802)، و39 (3838)، سنن ابن ماجہ/الکفارات 6 (2105)، (تحفة الأشراف: 7517)، و مسند احمد (2/6، 10، 48، 153) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2105)

   جامع الترمذي1531عبد الله بن عمرحلف على يمين فقال إن شاء الله فقد استثنى فلا حنث عليه
   سنن أبي داود3261عبد الله بن عمرمن حلف على يمين فقال إن شاء الله فقد استثنى
   سنن أبي داود3262عبد الله بن عمرمن حلف فاستثنى فإن شاء رجع وإن شاء ترك غير حنث
   سنن ابن ماجه2106عبد الله بن عمرمن حلف واستثنى فلن يحنث
   سنن ابن ماجه2105عبد الله بن عمرمن حلف واستثنى إن شاء رجع وإن شاء ترك غير حانث
   سنن النسائى الصغرى3824عبد الله بن عمرمن حلف فاستثنى فإن شاء مضى وإن شاء ترك غير حنث
   سنن النسائى الصغرى3859عبد الله بن عمرمن حلف فقال إن شاء الله فقد استثنى
   سنن النسائى الصغرى3860عبد الله بن عمرمن حلف فقال إن شاء الله فقد استثنى
   سنن النسائى الصغرى3861عبد الله بن عمرمن حلف على يمين فقال إن شاء الله فهو بالخيار إن شاء أمضى وإن شاء ترك
   بلوغ المرام1174عبد الله بن عمر من حلف على يمين فقال : إن شاء الله فلا حنث عليه
   مسندالحميدي707عبد الله بن عمر

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1531 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1531  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث کی رو سے قسم کھانے والا ساتھ ہی اگر إن شاء اللہ کہہ دے تو ایسی قسم توڑنے پر کفارہ نہیں ہوگا،
کیوں کہ قسم کو جب اللہ کی مشیئت پر معلق کردیا جائے تووہ قسم منعقد نہیں ہوئی،
اورجب قسم منعقد نہیں ہوئی تو توڑنے پر اس کے کفارہ کا کیا سوال؟۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1531   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1174  
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کسی کام پر قسم کھائے اور ساتھ ہی «إن شاء الله» کہے تو اس قسم کو توڑنے کا کفارہ نہیں ہے۔ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1174»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الأيمان والنذور، باب الاستثناء في اليمين، حديث:3261، والترمذي، النذور والأيمان، حديث:1531، والنسائي، الأيمان والنذور، حديث:3824، وابن ماجه، الكفارات، حديث:2105، 2106، وأحمد:2 /10، وابن حبان (الموارد)، حديث:1183، 1184.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر قسم کھانے والا ساتھ ہی ان شاء اللہ کہہ دے تو وہ قسم توڑنے کا مرتکب کہلائے گا نہ اس پر کفارہ لازم ہوگاکیونکہ قسم کو جب مشیت الٰہی سے مقید کر دیا جائے تو بالاتفاق وہ قسم منعقد نہیں ہوتی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1174   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3824  
´قسم کھانے کے بعد استثنا کرنے یعنی ان شاءاللہ (اگر اللہ نے چاہا) کہنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو قسم کھائے اور ان شاءاللہ (اگر اللہ نے چاہا) کہے تو اگر چاہے تو وہ قسم پوری کرے اور اگر چاہے تو پوری نہ کرے، وہ قسم توڑنے والا نہیں ہو گا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3824]
اردو حاشہ:
(1) انشاء اللہ کے معنیٰ ہیں: اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ ان لفظوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قسم کھانے والے نے حتمی قسم نہیں کھائی۔ گویا اگر یہ کام کرسکا تو کرے گا ورنہ سمجھا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں چاہا‘ لہٰذا یہ کام نہ ہوسکا۔ ظاہر ہے اس پر گناہ کیونکر آئے گا؟ البتہ وعدہ وغیرہ میں ان شاء اللہ کو وعدہ خلافی کے لیے بہانا نہیں بنایا جاسکتا بلکہ صرف تبرکاً ہی پڑھنا چاہیے ورنہ وعدے کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔
(2) ان شاء اللہ ان الفاظ کا ظاہراً کہنا مقصود ہے۔ اگر کوئی نیت میں ان شاء اللہ کہے گا تو اس کا اعتبار نہیں کیونکہ قسم کا انعقاد ظاہری الفاظ سے ثابت ہوتا ہے نیت سے نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3824   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3262  
´قسم میں استثناء یعنی «إن شاء الله» کہہ دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قسم کھائی اور ان شاءاللہ کہا تو وہ چاہے قسم کو پورا کرے چاہے نہ پورا کرے وہ حانث (قسم توڑنے والا) نہ ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3262]
فوائد ومسائل:
چونکہ تمام امور اللہ عزوجل کی مشیت سے پورے ہوتے ہیں۔
اس لئے قسم میں بھی حسن ادب یہ ہے کہ مستقبل کے امور میں (ان شاء اللہ)کہہ لے۔
اس طرح قسم کھانے کی صورت میں اگر کام نہ ہوسکا تو قسم نہیں ٹوٹے گی۔
لیکن اگر قسم کھانے والا مخالفت کی نیت رکھتے ہوئے محض اپنے مخاطب کوتسلی دینے کےلئے (ان شاء اللہ) کہتا ہے۔
تو یہ بہت بڑا گنا ہ ہے۔
(انما الاعمال بالنیات)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3262   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2106  
´قسم میں ان شاءاللہ کہنے کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس نے قسم کھائی اور «إن شاء الله» کہا، وہ حانث یعنی قسم توڑنے والا نہ ہو گا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2106]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا۔
إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ﴾
 (الکہف: 18؍23، 24)
کسی کام کے بارے میں اس طرح ہر گز نہ کہیں کہ میں اسے کل کروں گا (بلکہ ساتھ یہ بھی کہیں)
مگر یہ کہ اللہ چاہے۔
اس لیے ان شاء اللہ کہنے کو استثناء بھی کہتے ہیں۔
اس سے اللہ پر اعتماد کا اظہار ہے کہ جو کچھ ہوگا اس کی توفیق سے ہوگا۔

(2)
  قسم کے ساتھ ان شاء اللہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میرا پکا ارادہ تو یہی ہے کہ فلاں کام کروں گا لیکن اگر اللہ کا فیصلہ کچھ اور ہوا اور مجھے کوئی عذر پیش آ گیا تو پھر یہ کام نہیں ہو سکے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2106   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.