(مرفوع) حدثنا قتيبة , عن مالك بن انس , عن سهيل بن ابي صالح , عن ابيه , عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: " من حلف على يمين , فراى غيرها خيرا منها , فليكفر عن يمينه وليفعل " , قال: وفي الباب , عن ام سلمة , قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم , ان الكفارة قبل الحنث تجزئ , وهو قول مالك بن انس , والشافعي , واحمد , وإسحاق , وقال بعض اهل العلم: لا يكفر إلا بعد الحنث , قال سفيان الثوري: إن كفر بعد الحنث احب إلي , وإن كفر قبل الحنث اجزاه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: " مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ , فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا , فَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِهِ وَلْيَفْعَلْ " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , أَنَّ الْكَفَّارَةَ قَبْلَ الْحِنْثِ تُجْزِئُ , وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , وَالشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا يُكَفِّرُ إِلَّا بَعْدَ الْحِنْثِ , قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: إِنْ كَفَّرَ بَعْدَ الْحِنْثِ أَحَبُّ إِلَيَّ , وَإِنْ كَفَّرَ قَبْلَ الْحِنْثِ أَجْزَأَهُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی کسی امر پر قسم کھائے، اور اس کے علاوہ کام کو اس سے بہتر سمجھے تو وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کرے اور وہ کام کرے (جسے وہ بہتر سمجھتا ہے)“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام سلمہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے، ۳- اکثر اہل علم صحابہ اور دیگر لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ ادا کرنا صحیح ہے، مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: «حانث» ہونے (یعنی قسم توڑنے) کے بعد ہی کفارہ ادا کیا جائے گا، ۵- سفیان ثوری کہتے ہیں: اگر کوئی «حانث» ہونے (یعنی قسم توڑنے) کے بعد کفارہ ادا کرے تو میرے نزدیک زیادہ اچھا ہے اور اگر «حانث» ہونے سے پہلے کفارہ ادا کرے تو بھی درست ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: عبدالرحمٰن بن سمرہ کی حدیث جو اس سے پہلے مذکور ہے اور باب کی اس حدیث کے الفاظ مجموعی طور پر قسم توڑنے کی صورت میں کفارہ کی ادائیگی کو پہلے بھی اسی طرح جائز بتاتے ہیں جس طرح اس کے بعد جائز بتاتے ہیں، جمہور کا یہی مسلک ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قسم کا کفارہ قسم توڑنے سے پہلے ادا کرنا کسی حالت میں صحیح نہیں ہے تو ابوداؤد کی حدیث «فكفر عن يمينك ثم ائت الذي هو خير» ان کے خلاف حجت ہے اس میں کفارہ کے بعد «ثم» کا لفظ ترتیب کا مقتضی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأیمان 3 (650/12)، (تحفة الأشراف: 2738)، و مسند احمد (2/361) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2084)، الروض النضير (1029)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1530
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: عبدالرحمن بن سمرہ کی حدیث جو اس سے پہلے مذکور ہے اور باب کی اس حدیث کے الفاظ مجموعی طورپر قسم توڑنے کی صورت میں کفارہ کی ادائیگی کو پہلے بھی اسی طرح جائز بتاتے ہیں جس طرح اس کے بعد جائز بتاتے ہیں، جمہور کا یہی مسلک ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قسم کا کفارہ قسم توڑنے سے پہلے اداکرنا کسی حالت میں صحیح نہیں ہے تو ابوداود کی حدیث”فكفر عن يمينك ثم ائت الذي هو خير“ ان کے خلاف حجت ہے اس میں کفارہ کے بعد ” ثم “ کا لفظ ترتیب کا مقتضی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1530