(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الاعلى , حدثنا عبد الرزاق , عن الثوري، عن سماك , عن عكرمة , عن ابن عباس , قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يتخذ شيء فيه الروح غرضا " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل عليه عند اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , عَنْ الثَّوْرِيِّ، عَنْ سِمَاكٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتَّخَذَ شَيْءٌ فِيهِ الرُّوحُ غَرَضًا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جاندار کو نشانہ بنانے سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصید 2 (1957)، سنن النسائی/الضحایا 41 (4448)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 10 (3187)، (تحفة الأشراف: 6112)، و مسند احمد (1/216، 273، 280، 285، 340، 345) (صحیح) (مؤلف اور ابن ماجہ کی سند میں سماک وعکرمہ کی وجہ سے کلام ہے، دیگر کی سند یں صحیح ہیں)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4449
´ «مجثمہ»(جس جانور کو باندھ کر نشانہ لگا کر مارنے اور اس کو کھانے) کی حرمت کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایسی چیز کو نشانہ نہ بناؤ جس میں روح اور جان ہو۔“[سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4449]
اردو حاشہ: جاندار چیز کو نشانہ بنانا ظلم ہے اور ظلم حرام ہے۔ انسان پر ہو یا حیوان پر۔ حتیٰ کہ بے جان چیزوں پر بھی۔ ہر چیز کے ساتھ حسن سلوک فرض ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے، حدیث: 4331)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4449