(مرفوع) حدثنا محمد بن عمرو السواق , حدثنا عبد العزيز بن محمد , عن عمرو بن ابي عمرو , عن عكرمة , عن ابن عباس , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من وجدتموه وقع على بهيمة فاقتلوه واقتلوا البهيمة " , فقيل لابن عباس: ما شان البهيمة؟ قال: ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك شيئا , ولكن: " ارى رسول الله كره ان يؤكل من لحمها , او ينتفع بها , وقد عمل بها ذلك العمل " , قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه إلا من حديث عمرو بن ابي عمرو , عن عكرمة , عن ابن عباس , عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ , عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ وَجَدْتُمُوهُ وَقَعَ عَلَى بَهِيمَةٍ فَاقْتُلُوهُ وَاقْتُلُوا الْبَهِيمَةَ " , فَقِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: مَا شَأْنُ الْبَهِيمَةِ؟ قَالَ: مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ شَيْئًا , وَلَكِنْ: " أَرَى رَسُولَ اللَّهِ كَرِهَ أَنْ يُؤْكَلَ مِنْ لَحْمِهَا , أَوْ يُنْتَفَعَ بِهَا , وَقَدْ عُمِلَ بِهَا ذَلِكَ الْعَمَلُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس آدمی کو جانور کے ساتھ وطی (جماع) کرتے ہوئے پاؤ تو اسے قتل کر دو اور (ساتھ میں) جانور کو بھی قتل کر دو“۔ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے پوچھا گیا: جانور کو قتل کرنے کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کچھ نہیں سنا ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ جس جانور کے ساتھ یہ برا فعل کیا گیا ہو، اس کا گوشت کھانے اور اس سے فائدہ اٹھانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند سمجھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمرو بن ابی عمرو کی حدیث کو جسے وہ بطریق: «عكرمة عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کرتے ہیں۔ ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یعنی عاصم کی روایت جو ابن عباس سے موقوف ہے یہ زیادہ صحیح ہے عمرو بن ابی عمرو کی روایت سے جو اس سے پہلے مذکور ہوئی ہے۔
۲؎: یعنی ان کا عمل عاصم کی موقوف روایت پر ہے کہ جانور سے وطی کرنے والے پر کوئی حد نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحدود 29 (3062)، سنن ابن ماجہ/الحدود 13 (4464)، (تحفة الأشراف: 6176)، و مسند احمد (1/269، 300 (حسن صحیح)»
اور سفیان ثوری نے بطریق: «عاصم عن أبي رزين عن ابن عباس»(موقوفاً عليه) روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: جانور سے «وطی»(جماع) کرنے والے پر کوئی حد نہیں ہے۔ ہم سے اس حدیث کو محمد بن بشار نے بسند «عبدالرحمٰن بن مهدي حدثنا سفيان الثوري» بیان کیا اور یہ ۱؎ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے ۲؎، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ مالمؤلف و انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 6454) (حسن)»