وائل بن حجر کندی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت نماز کے لیے نکلی، اسے ایک آدمی ملا، اس نے عورت کو ڈھانپ لیا اور اس سے اپنی حاجت پوری کی
(یعنی اس سے زبردستی زنا کیا)، وہ عورت چیخنے لگی اور وہ چلا گیا، پھر اس کے پاس سے ایک
(دوسرا) آدمی گزرا تو یہ عورت بولی: اس
(دوسرے) آدمی نے میرے ساتھ ایسا ایسا
(یعنی زنا) کیا ہے
۱؎ اور اس کے پاس سے مہاجرین کی بھی ایک جماعت گزری تو یہ عورت بولی: اس آدمی نے میرے ساتھ ایسا ایسا
(یعنی زنا) کیا ہے،
(یہ سن کر) وہ لوگ گئے اور جا کر انہوں نے اس آدمی کو پکڑ لیا جس کے بارے میں اس عورت نے گمان کیا تھا کہ اسی نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے اور اسے اس عورت کے پاس لائے، وہ بولی: ہاں، وہ یہی ہے، پھر وہ لوگ اسے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے، چنانچہ جب آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، تو اس عورت کے ساتھ زنا کرنے والا کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کے ساتھ زنا کرنے والا میں ہوں، پھر آپ نے اس عورت سے فرمایا:
”تو جا اللہ نے تیری بخشش کر دی ہے
۲؎“ اور آپ نے اس آدمی کو
(جو قصوروار نہیں تھا) اچھی بات کہی
۳؎ اور جس آدمی نے زنا کیا تھا اس کے متعلق آپ نے فرمایا:
”اسے رجم کرو
“، آپ نے یہ بھی فرمایا:
”اس
(زانی) نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ اس طرح توبہ کر لیں تو ان سب کی توبہ قبول ہو جائے
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،
۲- علقمہ بن وائل بن حجر کا سماع ان کے والد سے ثابت ہے، یہ عبدالجبار بن وائل سے بڑے ہیں اور عبدالجبار کا سماع ان کے والد سے ثابت نہیں۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1454
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
حالانکہ زنا کرنے والا کوئی اور تھا،
عورت نے غلطی سے اسے سمجھ لیا۔
2؎:
کیونکہ تجھ سے حد والا کام زبردستی کرایا گیا ہے۔
3؎:
یعنی اس کے لیے تسلی کے کلمات کہے،
کیونکہ یہ بے قصور تھا۔
4؎:
چونکہ اس نے خود سے زنا کا اقرار کیا اور شادی شدہ تھا،
اس لیے آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اسے رجم کیا جائے۔
نوٹ:
(اس میں رجم کی بات صحیح نہیں ہے،
راجح یہی ہے کہ رجم نہیں کیا گیا۔
دیکھئے:
الصحیحة رقم: 900)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1454
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4379
´جس نے حد کا کام کیا پھر خود آ کر اقرار جرم کیا اس کے حکم کا بیان۔`
وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نماز پڑھنے کے ارادہ سے نکلی تو اس سے ایک مرد ملا اور اسے دبوچ لیا، اور اس سے اپنی خواہش پوری کی تو وہ چلائی، وہ جا چکا تھا، اتنے میں اس کے پاس سے ایک اور شخص گزرا تو وہ کہنے لگی کہ اس (فلاں) نے میرے ساتھ ایسا ایسا کیا ہے، اتنے میں مہاجرین کی ایک جماعت بھی آ گئی ان سے بھی اس نے یہی کہا کہ اس نے اس کے ساتھ ایسا ایسا کیا ہے، تو وہ سب گئے اور اس شخص کو پکڑا جس کے متعلق اس نے کہا تھا کہ اس نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے، اور اسے لے کر آئے، تو اس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4379]
فوائد ومسائل:
1) اسلامی معاشرے کا یہ مفہوم کہ اس کے سب افراد گناہوں اور غلطیوں سے مبرا ہوتے ہیں، درست نہیں، بلکہ درست یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں شرعی طرز معاشرت کا چلن غالب ہوتا ہے۔
اگر کسی سے کوئی جرم ہوجائے تو اس کے بارے مین شرعی قانون پر پورا پورا عمل بھی کیا جاتا ہے۔
2) مجرم جب ازخود اقرار کرے اور تحقیق سے ثابت ہو کہ اس کے اقرار میں کوئی شبہ نہیں تو اس پر شرعی حد نافذ ہو گی، مگر اس روایت کے سلسلے میں علامہ البانی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ راجح یہ ہے کہ شخص رجم نہیں کیا گیا تھا اور لفظ (ارجموه) اسے رجم کردو صحیح نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4379