عبداللہ بن ابی اوفی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ قاضی کے ساتھ ہوتا ہے ۱؎ جب تک وہ ظلم نہیں کرتا، اور جب وہ ظلم کرتا ہے تو وہ اسے چھوڑ کر الگ ہو جاتا ہے۔ اور اس سے شیطان چمٹ جاتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس کو صرف عمران بن قطان کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ کی مدد اس کے شامل حال ہوتی ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2312
´ظلم اور رشوت پر وارد وعید کا بیان۔` عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی مدد قاضی (فیصلہ کرنے والے) کے ساتھ اس وقت تک ہوتی ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے، جب وہ ظلم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے نفس کے حوالے کر دیتا ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2312]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) جب انسان صحیح کام کی نیت رکھتا ہو تو اسے اللہ کی طرف سے توفیق اور مدد حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح قاضی اگر صحیح فیصلہ کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی فرماتا ہے اور اس کے لیے حقیقت تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے، اگر نیک نیتی کے باوجود غلطی بھی ہو جائے تو وہ غلطی معاف ہے۔
(2) جب قاضی کا ارادہ بے انصافی کرنے کا ہو تو اللہ کی تائید و نصرت حاصل نہیں رہتی۔ اس کے نتیجے میں شیطان کو داؤ لگانے کا موقع مل جاتا ہے اور قاضی غلط فیصلہ کرکے ظلم مرتکب ہو جاتا ہے۔
(3) ہر اچھا کام اللہ کی توفیق و عنایت سے ہوتا ہے، اس لیے فرائض کی انجام دہی میں اللہ سے مدد مانگتے رہنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2312