(مرفوع) حدثنا القاسم بن دينار الكوفي، حدثنا إسماعيل بن ابان الوراق، عن يحيى بن يعلى، عن ابي فروة يزيد بن سنان، عن زيد وهو: ابن ابي انيسة، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كبر على جنازة، فرفع يديه في اول تكبيرة ووضع اليمنى على اليسرى ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه، واختلف اهل العلم في هذا، فراى اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، ان يرفع الرجل يديه في كل تكبيرة على الجنازة، وهو قول: ابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وقال بعض اهل العلم: لا يرفع يديه إلا في اول مرة، وهو قول: الثوري، واهل الكوفة، وذكر عن ابن المبارك انه قال في الصلاة على الجنازة: لا يقبض يمينه على شماله ". وراى بعض اهل العلم، ان يقبض بيمينه على شماله كما يفعل في الصلاة. قال ابو عيسى: يقبض احب إلي.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبَانَ الْوَرَّاقُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ يَزِيدَ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ زَيْدٍ وَهُوَ: ابْنُ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَبَّرَ عَلَى جَنَازَةٍ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ وَوَضَعَ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا، فَرَأَى أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنْ يَرْفَعَ الرَّجُلُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ عَلَى الْجَنَازَةِ، وَهُوَ قَوْلُ: ابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَذُكِرَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ قَالَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ: لَا يَقْبِضُ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ ". وَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنْ يَقْبِضَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ كَمَا يَفْعَلُ فِي الصَّلَاةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: يَقْبِضُ أَحَبُّ إِلَيَّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازے میں اللہ اکبر کہا تو پہلی تکبیر پر آپ نے رفع یدین کیا اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ۳- اہل علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا خیال ہے کہ آدمی جنازے میں ہر تکبیر کے وقت دونوں ہاتھ اٹھائے گا، یہ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ۱؎، ۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: صرف پہلی بار اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے گا۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے ۲؎، ۵- ابن مبارک کہتے ہیں کہ نماز جنازہ میں داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کو نہیں پکڑے گا، ۶- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: وہ اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کو پکڑے گا جیسے وہ دوسری نماز میں کرتا ہے، ۷-
امام ترمذی کہتے ہیں: ہاتھ باندھنا مجھے زیادہ پسند ہے۔
وضاحت: ۱؎: ان لوگوں کا استدلال عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کی حدیث سے ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز جنازہ پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھ ہر تکبیر میں اٹھاتے اس کی تخریج دارقطنی نے اپنی علل میں «عن عمر بن شبہ حدثنا یزید بن ہارون انبأنا یحییٰ بن سعید عن نافع عن ابن عمروقال ہکذا … رفعہ عمر بن شبة» کے طریق سے کی ہے لیکن ایک جماعت نے ان کی مخالفت کی ہے اور یزید بن ہارون سے اسے موقوفاً روایت کیا ہے اور یہی صحیح ہے اس باب میں کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے۔
۲؎: ان لوگوں کا استدلال باب کی اس حدیث سے ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ تخریج سے ظاہر ہے نیز ان کی دوسری دلیل ابن عباس کی روایت ہے اس کی تخریج دارقطنی نے کی ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ میں اپنے دونوں ہاتھ پہلی تکبیر میں اٹھاتے تھے پھر ایسا نہیں کرتے تھے لیکن اس میں ایک راوی فضل بن سکن ہے جسے علماء نے ضعیف کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13117) (حسن) (سند میں ابو فردہ یزید بن سناز ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، دیکھئے احکام الجنائز: 115، 116)»
قال الشيخ الألباني: حسن الأحكام (115 - 116)
قال الشيخ زبير على زئي: (1077) إسناده ضعيف يحيي بن يعلي و يزيد بن سنان: ضعيفان (تق:7677،7727) وقال الھيثمي فى يزيد بن سنان: والأاكثر على تضعيفه (مجمع الزوائد 218/4) وللحديث شاھد ضعيف عند الدارقطني (75/2 ح 1824) فيه الفضل بن السكن: مجھول و حجاج بن نصير ضعيف (تقدم: 502)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1077
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ان لوگوں کا استدلال عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ہے جس میں ہے کہ نبی اکرمﷺ جب صلاۃِ جنازہ پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھ ہرتکبیرمیں اٹھاتے اس کی تخریج دارقطنی نے اپنی علل میں «عن عمربن شبه حدثنا یزیدبن هارون انبأنا یحییٰ بن سعیدعن نافع عن ابن عمروقال هکذا ...رفعه عمربن شبة» کے طریق سے کی ہے لیکن ایک جماعت نے ان کی مخالفت کی ہے اوریزیدبن ہارون سے اسے موقوفاً روایت کیا ہے اوریہی صحیح ہے اس باب میں کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے۔
2؎: ان لوگوں کا استدلال باب کی اس حدیث سے ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیساکہ تخریج سے ظاہرہے نیز ان کی دوسری دلیل ابن عباس کی روایت ہے اس کی تخریج دارقطنی نے کی ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺجنازہ میں اپنے دونوں ہاتھ پہلی تکبیرمیں اٹھاتے تھے پھرایسانہیں کرتے تھے لیکن اس میں ایک راوی فضل بن سکن ہے جسے علماء نے ضعیف کہا ہے۔
نوٹ: (سند میں ابوفردہ یزید بن سناز ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث حسن ہے، )(دیکھئے احکام الجنائز: 115، 116)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1077
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1565
´قبر پر مٹی ڈالنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز جنازہ پڑھی، پھر میت کی قبر کے پاس تشریف لا کر اس پر سرہانے سے تین مٹھی مٹی ڈالی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1565]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جنازہ پڑھنے والا اگر دفن تک رکے تو اسے چاہیے کہ قبر پرکم از کم تین لپیں مٹی ڈالے۔
(2) لپ سے مراد دونوں ہاتھ ملا کر مٹی ڈالنا ہے۔ جسے پنجابی میں بک کہتے ہیں۔ ایک ہاتھ بھر کر کوئی چیز لینے کو اردو میں چلو کہتے ہیں حدیث میں یہ مراد نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1565