ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز جنازہ پڑھی، پھر میت کی قبر کے پاس تشریف لا کر اس پر سرہانے سے تین مٹھی مٹی ڈالی۔
It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (ﷺ) offered the funeral prayer, then he came to the grave of the deceased and scattered three handfuls of earth from the side of (the deceased’s) head.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف يحيي بن أبي كثير مدلس و عنعن و جاء تصريح سماعه في رواية موضوعة و للحديث شواھد ضعيفة انوار الصحيفه، صفحه نمبر 434
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1565
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جنازہ پڑھنے والا اگر دفن تک رکے تو اسے چاہیے کہ قبر پرکم از کم تین لپیں مٹی ڈالے۔
(2) لپ سے مراد دونوں ہاتھ ملا کر مٹی ڈالنا ہے۔ جسے پنجابی میں بک کہتے ہیں۔ ایک ہاتھ بھر کر کوئی چیز لینے کو اردو میں چلو کہتے ہیں حدیث میں یہ مراد نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1565
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1077
´نماز جنازہ میں رفع یدین کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازے میں اللہ اکبر کہا تو پہلی تکبیر پر آپ نے رفع یدین کیا اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1077]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ان لوگوں کا استدلال عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ہے جس میں ہے کہ نبی اکرمﷺ جب صلاۃِ جنازہ پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھ ہرتکبیرمیں اٹھاتے اس کی تخریج دارقطنی نے اپنی علل میں «عن عمربن شبه حدثنا یزیدبن هارون انبأنا یحییٰ بن سعیدعن نافع عن ابن عمروقال هکذا ...رفعه عمربن شبة» کے طریق سے کی ہے لیکن ایک جماعت نے ان کی مخالفت کی ہے اوریزیدبن ہارون سے اسے موقوفاً روایت کیا ہے اوریہی صحیح ہے اس باب میں کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے۔
2؎: ان لوگوں کا استدلال باب کی اس حدیث سے ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیساکہ تخریج سے ظاہرہے نیز ان کی دوسری دلیل ابن عباس کی روایت ہے اس کی تخریج دارقطنی نے کی ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺجنازہ میں اپنے دونوں ہاتھ پہلی تکبیرمیں اٹھاتے تھے پھرایسانہیں کرتے تھے لیکن اس میں ایک راوی فضل بن سکن ہے جسے علماء نے ضعیف کہا ہے۔
نوٹ: (سند میں ابوفردہ یزید بن سناز ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث حسن ہے، )(دیکھئے احکام الجنائز: 115، 116)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1077