(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، سمع سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " اسرعوا بالجنازة، فإن يكن خيرا تقدموها إليه، وإن يكن شرا تضعوه عن رقابكم ". وفي الباب: عن ابي بكرة. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَسْرِعُوا بِالْجَنَازَةِ، فَإِنْ يَكُنْ خَيْرًا تُقَدِّمُوهَا إِلَيْهِ، وَإِنْ يَكُنْ شَرًّا تَضَعُوهُ عَنْ رِقَابِكُمْ ". وَفِي الْبَاب: عَنْ أَبِي بَكْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جنازہ تیزی سے لے کر چلو ۱؎، اگر وہ نیک ہو گا تو اسے خیر کی طرف جلدی پہنچا دو گے، اور اگر وہ برا ہو گا تو اسے اپنی گردن سے اتار کر (جلد) رکھ دو گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبکرہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: جمہور کے نزدیک امر استحباب کے لیے ہے، ابن حزم کہتے ہیں کہ وجوب کے لیے ہے۔
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 460
´میت کو دفن کرنے میں جلدی کرنی چاہیے` ”سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جنازہ لے جانے میں جلدی کیا کرو۔ اس لئے کہ اگر مرنے والا صالح اور نیک آدمی تھا تو اس کے لئے بہتر ہو گا کہ اسے بہتر جگہ کی طرف جلدی لے جاؤ اور اگر دوسرا ہے (برا آدمی ہے) تو اپنی گردن سے اتار کر رکھ دو۔“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 460]
لغوی تشریح: «اَسْرِعُوا» چلنے میں جلدی کرو، یا اس کا مطلب یہ ہے کہ موت کے وقوع کے یقینی ہونے کے بعد میت کی تجہیز و تکفین میں جلدی کرو۔ «تَضَعُونَهُ» وضع سے ماخوذ ہے جس کے معنی اتار کر رکھ دینے کے ہیں۔ یہ حمل کے مقابلے میں بولا جاتا ہے جس کے معنی اٹھانے کے ہوتے ہیں۔ اور یہ کنایۃ ”اپنے سے دور کر دینے“ کے معنی میں مستعمل ہے۔
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وفات ہو جانے کی بعد میت کو دفن کرنے میں جلدی کرنی چاہیے، دور دراز کے اقارب و احباب کو جمع کرنا اور ان کی آمد کے انتظار میں تاخیر کرنا خلاف سنت ہے، نیز اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے گھر سے دور کسی اور جگہ یا کسی دوسرے ملک میں فوت ہو جاتا ہے تو اسے اپنے ملک میں واپس لانے کے بجائے ادھر ہی دفن کر دینا چاہیے جس ملک میں اس کی وفات ہوئی ہے، مثلاً: اگر کوئی شخص حج یا عمرہ کرنے کے لیے سعودی عرب جاتا ہے اور وہاں اس کی موت واقع ہو جاتی ہے تو اسے واپس پاکستان لانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اسے ادھر ہی دفن اقرب الی السنہ ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 460
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1911
´جنازے کو جلد دفنانے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنازے کو تیز لے چلو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے نیکی کی طرف (جلد) لے جاؤ گے، اور اگر اس کے علاوہ ہے تو وہ ایک شر ہے جسے تم (جلد) اپنی گردنوں سے اتار پھینکو گے۔“[سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1911]
1911۔ اردو حاشیہ: جنازہ جلدی لے جانے کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں: ➊ جنازہ زیادہ دیر تک گھر میں نہ رکھو بلکہ تکفین و تجہیز میں جلدی کرو۔ ➋ جنازہ اٹھانے کے بعد تیز تیز چلو۔ بوجھ اٹھانے والا شخص فطری طور پر تیز تیز چلتا ہے، مگر اتنا تیز نہ چلے کہ میت کو جھٹکے لگیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1911
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1912
´جنازے کو جلد دفنانے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جنازے کو جلدی لے چلو، کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے خیر کی طرف جلد لے جاؤ گے، اور اگر بد ہے تو شر کو اپنی گردنوں سے (جلد) اتار پھینکو گے۔“[سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1912]
1912۔ اردو حاشیہ: ”گردنوں سے اتار رہے ہو“ پہلے معنی کی رو سے اس کا مطلب ہے کہ تم اپنی ذمے داری سے فارغ ہو رہے ہو، دوسرا معنی ظاہر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1912
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3181
´جنازہ جلدی لے جانے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنازہ لے جانے میں جلدی کیا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے نیکی کی طرف پہنچانے میں جلدی کرو گے اور اگر نیک نہیں ہے تو تم شر کو جلد اپنی گر دنوں سے اتار پھینکو گے۔“[سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3181]
فوائد ومسائل: وفات ہوجانے کے بعد میت کو دفن کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔ دوردراز کے اقارب واحباب کو جمع کرنا اور ان کی آمد کے انتظار میں تاخیر کرنا ایک غیر شرعی اور نامناسب عمل ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3181
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1477
´جنازہ میں شرکت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنازہ کو جلدی لے کر چلو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو نیکی کی طرف جلدی پہنچا دو گے، اور اگر بد ہے تو بدی کو اپنی گردن سے اتار پھینکو گے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1477]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) میت کو غسل دینے کے بعد کفن کرنے میں بلاوجہ تاخیر کرنا درست نہیں۔
(2) بعض لوگ دفن کرنے میں اس لئے دیر کردیتے ہیں۔ کہ متوفی کے بعض قریبی رشتہ دار دوسرے شہر یا ملک سے آئیں گے تب دفن کیا جائے گا۔ یہ رواج غلط ہے۔ بعد میں آنے والے قبر پر جا کر میت کے حق میں دعا کریں۔ اورچاہیں تو قبر پر نماز جنازہ ادا کر لیں۔ اس کی دلیل صحیح بخاری کی یہ روایت ہے۔ کہ ایک خاتون مسجد نبویﷺ کی صفائی کیا کرتی تھی۔ ایک رات اس کی وفات ہوگئی۔ صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے رسول اللہﷺ کوتکلیف دینا مناسب نہ سمجھا اور اس کا جنازہ پڑھ کر اسے دفن کردیا۔ جب رسول اللہﷺ کو اس خاتون کی وفات کا علم ہوا تو اس کی قبر پر جا کر جنازہ پڑھا۔ دیکھئے: (صحیح البخاري، الجنائز، باب الصلاۃ علی القبر بعد ما یدفن، حدیث: 1337)
(3) جلدی دفن کرنے کی ایک حکمت یہ بھی ہے۔ کہ نیک مومن جلد اپنے ٹھکانے پر پہنچ جائے کیونکہ اس کے لئے اس جہاں میں خیر ہی خیر ہے اور بُرا آدمی جتنی جلدی گھر سے نکلے اتنا ہی بہتر ہے تاکہ دفن کرنے والے اپنے فرض سے جلد سبک دوش ہوجایئں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1477
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1052
1052- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جنازے کو جلدی لے کرجاؤ کیونکہ اگر وہ نیک ہوگا، تو تم ایک بھلائی کی طرف اسے لے کر جاؤ گے اور اگر صورتحال اس کے برعکس ہوئی تو تم اپنی گردن سے ایک برائی کو اتاردو گے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1052]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کسی کے فوت ہونے کا یقینی علم ہو جائے تو اس کو دفنانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، بلکہ فوری دفنا دینا چاہیے، بس اتنے لوگوں تک اطلاع دینا ضروری ہے کہ بعض قبر کھودنے کے لیے آ جائیں اور کچھ میت کو غسل دینا شروع کر دیں، اور کچھ میت کو اٹھا کر قبرستان لے جائیں۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ میت بولتی ہے لیکن اس کی کیفیت ہم نہیں جانتے۔ یا رب العالمین راقم کو، اور اس کے اساتذہ کو اور اہل و عیال کو روز قیامت خادمین حدیث میں شمار فرما آمین۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1051
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2188
مصنف نے اپنی تین اساتذہ سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں،وہ کہتےہیں،میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، جنازہ لے جاؤ کیونکہ اگر میت نیک ہے تو تم اسے بھلائی کے قریب کر رہے ہو اور اگر وہ اس کے سوا ہے تو تم شرکو اپنی گردنوں سے اتار رہے ہو۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:2188]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: میت نیک ہو یا بد اسے ہر صورت میں تیز رفتاری سے لے جانا چاہیے۔ تاکہ وہ جلد اپنے انجام تک پہنچے۔ اور ہم ا پنے فریضہ سے سبکدوش ہوں اس لیے جنازہ کو جلدی لے جانا بالاتفاق مستحب ہے۔ اور ا بن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فرض ہے۔ جمہور کے نزدیک عام رفتار سے تیزی مراد ہے بھاگنا جائز نہیں ہے لیکن احناف کے نزدیک زیادہ تیز رفتاری مراد ہے۔ یعنی بہت تیزی کرنی چائیے اور آج کل اس بات کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنت پر چلنے کی توفیق دے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2188
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1315
1315. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”جنازے کو جلدی لے کر چلو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے خیر کی طرف لے جارہے ہو اور اگر براہے تو بری چیز کو اپنی گردنوں سے اتار کر سبکدوش ہو جاؤگے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1315]
حدیث حاشیہ: (1) جنازے کو جلدی لے جانے سے مراد دوڑنا نہیں بلکہ عادت سے زیادہ تیز چلنا ہے۔ علماء کے نزدیک ایسا کرنا مستحب ہے، بلکہ پروقار طریقے سے جلدی کی جائے، تیز بھاگنے میں کسی غیر متوقع حادثے کا اندیشہ ہے۔ اس سے یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کی تکفین میں جلدی کی جائے۔ (2) البتہ طاعون زدہ، فالج کے مریض اور غشی طاری ہونے سے مرنے والے کے متعلق جلدی نہ کی جائے جب تک اس کے مرنے کی تسلی نہ ہو جائے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے کم از کم ایک دن اور ایک رات انتظار کرنے کا لکھا ہے۔ (فتح الباري: 236/3) لیکن انتظار کی مذکورہ تحدید محل نظر ہے۔ صرف موت کے وقوع کا یقین ہونا ضروری ہے، خواہ چند گھنٹوں کے بعد ہو جائے۔ بہرحال مرنے کے بعد میت کو زیادہ دیر تک رکھنا درست نہیں اور جنازہ اٹھا کر جلدی جلدی چلنا مستحب ہے۔ اس پر علمائے امت کا اتفاق ہے۔ والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1315