فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5072
اردو حاشہ: (1) مخالفت کرنے سے مراد بال رنگنا ہے اور اس کی کئی صورتیں ہیں:٭ان کو سیاہ رنگ سے رنگ لیا جائے۔ لیکن حدیث میں اس کی ممانعت ہے۔٭ حنا، یعنی مہندی سے رنگا جائے اور حنا کا رنگ معروف ہے یعنی سرخ۔٭ حنا اور کتم سے رنگا جائے اور یہ رنگ سیاہی مائل سرخ ہوتا ہے۔ (2) ڈاڑھی اور سرکے بالوں کو رنگنا واجب ہے یا مستحب؟ اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، تاہم حق یہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں بالوں کو رنگنے ہی کا حکم ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: «ان اليهود والنصارى لايصبغون فخالفوهم»”یہودی اورعیسائی اپنے بال نہیں رنگتے، تم ان کی مخالفت کرو، یعنی بالوں کو رنگو۔“(صحیح البخاري، اللباس، باب الخضاب، حدیث:5899، وصحیح مسلم، اللباس، باب فی مخالفة الیهود فی الصبغ، حدیث:2103) اس حدیث میں مطلقاً مخالفت کا حکم ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بالوں کو سفید نہ رہنے دو بلکہ ان کو رنگ لو، خواہ کسی رنگ سے ہو، بالوں کو کالا کرنے کے قائل اسی مطلق حکم سے استدلال کرتے ہیں لیکن یہ استدلال درست نہیں کیونکہ نبی ﷺ نے بالکل سیاہ رنگ کے خضاب سے منع فرمایا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ فتح مکہ والے دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد حضرت ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کو نبی ﷺ کی خدمت میں لایا گیا تو ان کےسر اور ڈاڑھی کے بال ثغامہ بوٹی کی طرح سفید تھے۔ نبی ﷺ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: «غيروا هذا بشئ واجتنبوا لسواد» اسے کسی رنگ سے بدل دو لیکن سیاہ رنگ سے بچنا۔ (صحیح مسلم، اللباس، باب استحباب خضاب الشیب.... حدیث:2102) اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوگیا کہ سراور ڈاڑھی کے بالوں کو رنگنے کا حکم تو ہے لیکن کالے رنگ کے علاوہ کسی اور رنگ سے انہیں رنگا جائے گا۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ بالوں کو رنگنا فرض ہے یا مستحب؟ تو اس کے متعلق علماء کی دونوں رائے ہیں۔ بعض اہل علم وجوب کے قائل ہیں اور بعض اسے مستحب ہی سمجھتے ہیں۔ ہمارے خیال میں استحباب والا موقف اقرب الی الصواب ہے۔ حافظ عبدالمنان رحمہ اللہ ایک استفتا کا جواب دیتے ہوئے رقم طراز ہیں: احادیث میں رسول اللہ ﷺ کےبالوں کو رنگنے کا بھی ذکر ہے اور نہ رنگنے کا بھی جس سے پتا چلتا ہے کہ آپ کا رنگنے سےمتعلق امر ندب (استحباب) پرمحمول ہے، البتہ کل کے کل بال سفید ہوجائیں کوئی ایک بال بھی سیاہ نہ رہے تو پھر رنگنے کی مزید تاکید ہے جیسا کہ ابوقحافہ، والد ابی بکر رضی اللہ عنہما والی حدیث سے عیاں ہے۔ دیکھئے (احکام ومسائل:531/1) مولانا صفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ صحیح مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں ”خضاب کا حکم استحباب کےلیے ہونا چاہیے نہ کہ وجوب کے لیے، اس کےلیے کہ حضرت علی، ابی بن کعب، سلمہ بن اکوع اور حضرت انس اور صحابہ کی ایک جماعت نے خضاب کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ رضی اللہ عنہم۔ مزید برآں یہ کہ ان کے علاوہ دوسرے بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل بھی اس پر شاید ہے۔ گویا انہوں نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان میں ممتاز ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5072