فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5055
´مونچھ کاٹنے کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میرے سر پر (لمبے) بال تھے، آپ نے فرمایا: ”نحوست ہے“، میں نے سمجھا کہ آپ مجھے کہہ رہے ہیں، چنانچہ میں نے اپنے سر کے بال کٹوا دیے پھر میں آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ”میں نے تم سے نہیں کہا تھا، لیکن یہ بہتر ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5055]
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ حدیث اور عنوان کی باہم مطابقت نہیں ہے۔ ہاں! یہ مطابقت اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ یہ باب اس طرح ہو ”الأخذ من الشعر“ جیسا کہ بعض نسخوں میں انہیں الفاظ سے عنوان قائم کیا گیا ہے۔ دیکھیے (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی:38؍18)۔
(2) یہ حدیث مبارکہ صحابۂ کرامرضی اللہ عنہم کی عظمت پر بھی صریح دلالت کرتی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی کس طرح تعمیل کرتے تھے کہ حضرت وائل بن حجررضی اللہ عنہ نے جب نبی ﷺ کی زبان مبارک سےلفظ ذباب ”نحوست ہے“ سنا توفوراً جا کر اپنے لمبے بال کٹوادیے۔ انہوں نے یہ کام اس لیے کیا کہ وہ سمجھتے تھے کہ آپ میرے بالوں کی مذمت کررہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اگرچہ بال کٹوانے کاحکم نہیں دیا تھا، تاہم آپ نے حضرت وائل رضی اللہ عنہ کے فعل کی تحسین فرمائی۔
(3) بہت زیادہ لمبے بال رکھنا مناسب نہیں کہ حد اعتدال ہی سے نکل جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت وائل رضی اللہ عنہ کے لمبے بال کٹوا دینے کے عمل کو سراہا اور خود رسول اللہ ﷺ کے اپنے بال مبارک آپ کے مبارک شانوں (کندھوں) سے زیادہ نیچے نہیں جایا کرتے تھے۔ ہر شخص کو بالخصوص ہر مسلمان کو نبی ﷺ کی اقتدا کرنی چاہیے۔
(4) معلوم ہوا بال کٹوانا اچھی بات ہے۔ بہت لمبے بال رکھنا عورتوں سے مشابہت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5055