فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 13
´مونچھ کترنا۔`
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اپنی مونچھ کے بال نہ لے وہ ہم میں سے نہیں“ ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 13]
13۔ اردو حاشیہ:
➊ مونچھیں، بلوغت کا نشان ہیں، اس سے بچے اور بڑے میں تمیز ہوتی ہے، مگر یہ منہ کے اوپر ہوتی ہیں، زیادہ بڑی ہو جائیں تو کھانے پینے کی چیزوں کو لگیں گی۔ خود بھی آلودہ ہوں گی اور کھانے پینے کی چیزیں بھی گرد وغبار وغیرہ سمیت پیٹ میں جائیں گی، لہٰذا بالائی ہونٹ سے نیچے مونچھوں کو کاٹنا عقلی تقاضا ہے۔ شریعت اسلامیہ کا حکم بھی یہی، البتہ مونچھوں کے کنارے جو ڈاڑھی سے مل جائیں، بغیر کاٹے رکھے جا سکتے ہیں۔
➋ مذکورہ احادیث (نمبر 9 سے 11) امیں پانچ فطری امور ذکر کیے گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف یہ پانچ چیزیں ہی فطرت میں داخل ہیں بلکہ دوسری احادیث میں ان کے علاوہ کچھ اور چیزوں کا بھی ذکر ہے، مثلاً: ایک روایت میں ہے: «عشر من الفطرہ» ”دس چیزیں فطرت سے ہیں۔“ (صحيح مسلم، الطهارة، حديث: 261) ان کا ذکر ان شاء اللہ اپنے مقام پر آئے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 13