تخریج: «أخرجه البخاري، البيوع، باب إن شاء رد المصراة، حديث:2151، ومسلم، البيوع، باب حكم بيع المصراة، حديث:1524.»
تشریح:
1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجوریں ساتھ واپس دینے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ اس جانور سے حاصل کردہ دودھ کا معاوضہ ہو جائے کیونکہ کچھ دودھ تو خریدار کی ملکیت میں آنے پر پیدا ہوا ہے اور کچھ دودھ بیع میں آیا ہے۔
اب چونکہ خریدار کو یہ تمیز کرنا دشوار ہے کہ کتنا دودھ خریدا ہوا ہے اور کتنا نیا داخل ہے‘ چنانچہ عدم تمیز کی بنا پر اسے واپس کرنا یا اس کی قیمت واپس کرنا ممکن نہیں تھا‘ اس لیے شارع علیہ السلام نے ایک صاع مقرر فرما دیا کہ فروخت کرنے والے اور خریدار کے مابین تنازع اور جھگڑا پیدا نہ ہو۔
خریدار نے جو دودھ حاصل کیا ہے اس کا معاوضہ ہو جائے‘ قطع نظر اس سے کہ دودھ کی مقدار کم تھی یا زیادہ۔
(ملا علی قاری بحوالہ مرقاۃ) 2.جمہور اہل علم تو حدیث کے ظاہر کی جانب ہی گئے ہیں اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ نے بھی فتویٰ اسی کے مطابق دیا ہے اور کسی صحابی سے اس کی مخالفت بھی ثابت نہیں‘ البتہ اکثر احناف نے اس مسئلے میں ان کی مخالفت کی ہے۔
لیکن وہ کوئی ایسی چیز پیش نہیں کر سکے جو ان کے لیے مفید ہو۔
اور انھوں نے اس میں بڑا تشدد اختیار کیا ہے‘ یہاں تک کہ اسی کو انھوں نے کسوٹی بنا لیا ہے جس پر وہ دوسروں کو جانچتے پرکھتے رہتے ہیں
(اور وہ کسوٹی یہ ہے) کہ کون موافقت کر کے ان کے امام کی تعظیم کرتا ہے اور کون مخالفت کر کے ان کے امام کی توہین کرتا ہے حتیٰ کہ انھوں نے ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق قلت درایت اور عدم فقاہت کا طعن محض اس حدیث کو روایت کرنے کی بنا پر کیا‘ انھیں غیر فقیہ اور درایت سے خالی گردان دیا‘ باوجودیکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی نہ صرف اس روایت کو بیان کیا ہے بلکہ انھوں نے تو ایسا فتویٰ بھی دیا ہے جبکہ ان کے فقیہ ہونے میں احناف کو بھی اختلاف نہیں۔
فَإِلَی اللّٰہِ الْمُشْتَکیٰ۔