سنن نسائي
كتاب البيوع
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
14. بَابُ : النَّهْىِ عَنِ الْمُصَرَّاةِ
باب: «مصراۃ» (تھن باندھے جانور) کی بیع منع ہے «مصراۃ» : اس اونٹنی یا بکری کو کہتے ہیں: جس کے تھن کو باندھ دیا جاتا ہے اور دو تین دن اسے دوہنا ترک کر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کا دودھ اکٹھا ہوتا رہتا ہے، خریدنے والا اس کا دودھ زیادہ دیکھ کر اس کی قیمت بڑھا دیتا ہے۔
حدیث نمبر: 4494
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنْ مُحَمَّدٍ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ , يَقُولُ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنِ ابْتَاعَ مُحَفَّلَةً أَوْ مُصَرَّاةً , فَهُوَ بِالْخِيَارِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ , إِنْ شَاءَ أَنْ يُمْسِكَهَا أَمْسَكَهَا , وَإِنْ شَاءَ أَنْ يَرُدَّهَا رَدَّهَا وَصَاعًا مِنْ تَمْرٍ لَا سَمْرَاءَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی «محفلہ» یا «مصراۃ» (دودھ تھن میں روکے ہوئے جانور کو) خریدا تو اسے تین دن تک اختیار ہے، اگر وہ اسے روکے رکھنا چاہے تو روک لے اور اگر لوٹانا چاہے تو اسے لوٹا دے اور اس کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی دے، گیہوں کا دینا ضروری نہیں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 4 (1524)، (تحفة الأشراف: 14435)، مسند احمد (2/284) (صحیح) (’’ثلاثة أيام‘‘ تین دن کی تحدید ثابت نہیں ہے، تفصیل کے لیے دیکھئے: سنن ابن ماجہ 2239، وسنن ابی داود 3444 (اس میں تصحیح کر لیں) وتراجع الالبانی 337)»
قال الشيخ الألباني: صحيح م خ نحوه دون ثلاثة أيام
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4494 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4494
اردو حاشہ:
(1) ”ابو القاسم“ یہ رسول اللہ ﷺ کی کنیت تھی، یا تو آپ کے بڑے بیٹے قاسم کی نسبت سے یا اس لیے کہ آپ ﷺ اللہ کے حکم سے علم اور مال تقسیم فرماتے تھے۔ تقسیم کرنے والے کو بھی قاسم کہا جاتا ہے۔ عربوں میں کنیت کا عام رواج تھا۔ جب کسی کا احترام مقصود ہوتا تھا تو اسے کنیت سے پکارا جاتا تھا۔
(2) ”تین دن تک“ کیونکہ اتنے دنوں میں اصل دودھ کا پتا چل جاتا ہے اور دھوکا واضح ہو جاتا ہے۔
(3) ”گندم کا نہیں“ کیونکہ اس وقت عرب میں گندم بہت مہنگی تھی۔ خال خال کسی کے پاس تھوڑی بہت ہوتی تھی جیسے آج کل ہمارے ہاں کھجوریں ہیں، لہٰذا گندم کی نفی اس علاقے کے لحاظ سے ہے نہ کہ ہمارے علاقے کے لحاظ سے جہاں کی عام خوراک گندم ہے بلکہ یہاں گندم دی جائے گی۔ و اللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4494
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2148
´اونٹ، بکری اور گائے کے تھن میں دودھ جمع کر کے رکھنا بائع کو منع`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" لَا تُصَرُّوا الْإِبِلَ وَالْغَنَمَ، فَمَنِ ابْتَاعَهَا بَعْدُ فَإِنَّهُ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ بَعْدَ أَنْ يَحْتَلِبَهَا . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بیچنے کے لیے) اونٹنی اور بکری کے تھنوں میں دودھ کو روک کر نہ رکھو . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ: 2148]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں یہ اشارہ فرمایا کہ اونٹ، بکری اور گائے کے تھن میں دودھ جمع کر کے رکھنا بائع کو منع ہے اور مزید اضافہ فرمایا کہ ”ہر جاندار کے تھن میں“ لیکن جو حدیث پیش کی ہے وہ اونٹ اور بکری کے الفاظ کے ساتھ کی ہے۔ لہٰذا مناسبت ترجمۃ الباب اور حدیث میں کچھ اس طرح سے ہو گی کہ تھنوں میں دودھ جمع کر کے بیچا ہی اسی لیے جاتا ہے کہ خریدنے والا جانور کو صحت مند محسوس کرے، جب حلال جانور بکری، گائے، اونٹنی وغیرہ کے تھنوں میں دودھ جمع کرنے کی ممانعت ہے حالانکہ وہ حلال ہیں تو پھر کیوں کر دوسرے جاندار کو اس طرح بیچنا حلال ہو سکتا ہے؟ جبکہ تھنوں میں دودھ جمع کر کے فروخت کرنا خریدنے والے کو دھوکے میں ڈالتا ہے۔ یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت قائم ہو گی۔
فائدہ:
احناف نے مندرجہ بالا حدیث کو قیاس کے خلاف شمار کر کے فقیہ امت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر بہتان لگایا کہ وہ غیر فقیہ تھے۔ حالانکہ اسی حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ [صحيح البخاري، كتاب البيوع، رقم الحديث: 2149] میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی نقل فرمایا ہے جو احناف کے نزدیک فقہی مرتبہ پر فائز ہیں۔
دراصل مسئلہ فقاہت اور غیر فقاہت کا نہیں اس مسئلے پر ہم آگے بحث کریں گے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ غیر فقہی ہیں یا وہ علماء احناف جو اس غلط نظریہ کی ترویج کرتے ہیں۔ اصل بات صرف اتنی ہے کہ یہ حدیث جو حدیث مصراۃ کہلاتی ہے یہ احناف کے مسلک کے خلاف ہے اور اصول كرخي صفحھ 15 16 میں واضح لکھا ہے کہ جو قرآن مجید کی آیت حنفی مذہب کے خلاف ہوں گی وہ منسوخ ہوں گی اور جو احادیث خلاف ہوں گی تو وہ تاویل طلب ہوں گی۔
لہٰذا یہ بھونڈا اصول، اصولِ کرخی میں موجود ہے اسی اصول کی پاسداری کرتے ہوئے علمائے احناف نے صحابی کا لحاظ تک نہ کیا۔ «انا لله وانا اليه راجعون»
اصول شاشی مع احسن الحواشی میں صاف طور پر لکھا ہے کہ: «ثم أعلم أن رواية غير الفقيه انما لا يقبل عنه مخالفة القياس» [اصول شاشي مع احسن الحواشي، ص76]
”یعنی جان لیں کہ غیر فقیہ کی روایت قبول نہ ہو گی جب کہ وہ قیاس کی مخالفت کرے گا۔“
محترم قارئین! اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مندرجہ بالا حدیث کے راوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو صرف اس لیے قبول نہیں کیا جا رہا کہ یہ حدیث ان کے مسلک کے خلاف ہے اور مزید یہ کہ مسلک کے دفاع کی وجہ سے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو غیر فقیہ قرار دیا گیا ہے۔ آخر اس کا کیا مطلب؟ حالانکہ مندرجہ بالا حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے جو صحیح بخاری میں رقم کی گئی ہے، اس کے فوراً ہی بعد اس صحابی سے حدیث مصراۃ نقل کی گئی جو احناف کے نزدیک فقیہ ہیں۔ احسن الحواشی میں لکھا ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں: «انه معروف بالفقه والاجتهاد» [احسن الحواشي۔ ص 76]
”یقیناًً عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فقہ اور اجہتاد میں معروف ہیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کسی بھی طریقے سے غیر فقیہ نہ تھے اور نہ ہی کسی مسلمان کو یہ زیب دیتا ہے کہ صحابی کو ان القابات سے پکارے۔۔۔ یاد رکھیں قیاس اور اجتہاد اگر نصوص کے خلاف ہوں گے تو وہ ہرگز قبول نہ ہوں گے کیوں کہ قیاس اور اجتہاد نصوص کے تابع ہیں۔ نصوص، قیاس اور اجتہاد کے تابع ہرگز نہیں ہیں۔ شریعت میں ایسے ان گنت مسائل ہیں جو بظاہر قیاس وعقل کے مخالف نظر آتے ہیں، کیا ان تمام احادیث کو احناف چھوڑنے کے لیے تیار ہیں؟
مثلاً: ابن عبد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: «رأيت على بن أبى طالب أنه يمسح على ظهور قدميه، يقول: لو لا أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح ظهورهما، لظننت أن بطونهما أحق» [مسند حميدي، ج1، ص26، ذم الكلام وأهله، ج2، ص205]
”سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے قدموں کے اوپر مسح کرتے اور کہتے کہ اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح نہ کرتے دیکھا ہوتا تو میں یہی گمان کرتا کہ اس کے نیچے مسح کرنے کا زیادہ حق ہے۔“
اس حدیث سے واضح قیاس کا رد ہوتا ہے کہ لازمی سی بات ہے بظاہر اسی جگہ مسح کیا جائے جس جگہ نجاست کا اندیشہ ہو مگر یہ حدیث واضح قیاس کے خلاف ہے۔ اب کیا احناف امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ کو فقیہ قرار دیں گے یا غیر فقیہ؟
غور کرنے سے یہ نتیجہ واضح طور پر اخذ ہوتا ہے کہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مکمل طور پر قیاس کے مطابق ہے اور مزید یہ ہے کہ ان کی بیان کردہ حدیث کو قیاس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ یہ ٹکسالی سند سے روایت کی گئی ہے اور مرفوع حدیث ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے احناف کا رد کرتے ہوئے صاف طور پر لکھا ہے آپ فرماتے ہیں: «وقد أخذ بظاهر هذا الحديث جمهور أهل العلم وأفتي به و ابن مسعود وأبوهريرة ولا يخالف لهم من الصحابة وقال به من التابعين ومن بعدهم من لا يحصي عدده . . .» [فتح الباري، ج4، ص458]
”اور یقیناًً اس حدیث کے ظاہر سے جمہور اور اہل علم نے فتویٰ دیا ہے اور سیدنا ابن مسعود اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما (سے یہ حدیث وارد ہے) اور نہ ہی کسی صحابی سے ان کی مخالفت ثابت ہے اور نا ہی تابعین میں اور جو ان کے بعد ہیں (یعنی کسی سے بھی اس حدیث کی مخالفت ثابت نہیں ہے) جن کا شمار کرنا ممکن نہیں۔“
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی صراحت سے بایں طور پر واضح ہوتا ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی کسی صحابی نے مخالفت نہیں کی اگر یہ حدیث صحیح نہ ہوتی تو صحابہ میں کوئی نہ کوئی ضرور ان کی مخالفت کرتا۔ مگر قرائن و دلائل کی روشنی میں ہمیں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی نہ ہی صحابہ میں کسی نے ان کی حدیث (حدیث مصراۃ) کو منسوخ سمجھا اور نہ ہی مرجوح اور راجح کا قول نقل کیا۔ یہ تمام بہانے احناف کی قسمت میں آئے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وتعقب بان حديث المصراة اصح منه باتفاق فكيف يقدم المرجوح على الراجح» [فتح الباري، ج4، ص459]
”تعقب یہ ہے کہ حدیث مصراۃ بالاتفاق بالکل صحیح ترین حدیث ہے۔ پھر کس طرح سے (اور کیوں) مرجوح کو راجح پر مقدم کیا جائے؟“ (یعنی جب حدیث صحیح ہے تو راجح مرجوح کی بحث فضول ہے)
مزید حافظ ابن حجر رحمہ اللہ احناف کا رد کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«ومنهم من قال هو خبر واحد لا يفيد إلا الظن، وهو مخالف لقياس الأصول المقطوع به فلا يلزم العمل به، وتعقب بأن التوقف فى خبر الواحد انما هو فى مخالفة الأصول لا فى مخالفة قياس الأصول، وهذا الخبر انما خالف قياس الاصول بدليل أن الأصول الكتاب والسنة والاجماع والقياس، والكتاب والسنة فى الحقيقة هما الأصل، والأخران مردودان إليهما، فالسنة اصل والقياس فرع فكيف يرد الأصل بالفرع؟ بل الحديث الصحيح أصل بنفسه فكيف يقال أن الأصل يخالف نفسه» [فتح الباري، ج5، ص314]
”(جو حدیث مصراۃ کو نہیں مانتے) ان میں سے (یہ بہانه بھی تراشتے ہیں کہ) یہ حدیث خبر واحد ہے اور قیاس اصول کے بھی خلاف ہے پھر کس طرح سے یہ قابل عمل ہو گی؟ بات یہ ہے کہ حدیث مصراۃ اصول کے خلاف ہے (جو احناف کے بنائے ہوئے ہیں) نہ کہ قیاس اصول کے خلاف ہے (جو حقیقتاً اصول ہیں) اور یہ خبر کہ (حدیث مصراۃ قیاس کے خلاف ہے) یہ اصول ہی قیاس اصول کے خلاف ہے کیونکہ اصل اصول تو قرآن وسنت، اجماع اور (جو ان اصولوں کے مطابق اصول میں شمار ہوں گیں وہ) (یاد رکھیں) قرآن و حدیث ہی حقیقت میں اصل ہیں اور باقی (تمام اصول) انہی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ پس سنت اصل ہے اور قیاس فرع ہے۔ پھر کس طرح سے اصل کو فرع کی طرف لوٹایا جائے؟؟ بس حدیث (مصراۃ) اپنے اعتبار سے بالکل صحیح ہے، پھر یہ کس طرح سے کہا گیا ہے کہ اصل خلاف ہے اپنے ہی (اصول کے)۔
حافظ صاحب رحمہ الله کے ان اقتباسات سے برملا طور یہ بات آشکارا ہوتی ہے کہ حدیث مصراۃ صحیح الاسناد اور ٹکسالی سند سے مروی ہے اس حدیث کو قیاس پر نہیں پرکھا جائے کیونکہ یہ حدیث اس مسئلے کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ حدیث مصراۃ صرف سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی نہیں بلکہ ان کے علاوہ دوسرے صحابہ نے بھی اس حدیث کو روایت فرمایا ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وفي الباب عن أنس ورجل من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم» [جامع ترمذي مع التحفة، ج2، ص244، نزهة الالباب فى قول الترمذي وفي الباب، ج4، ص1952]
”اس باب میں انس رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے صحابہ سے بھی روایت آتی ہے۔“
محدث عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی تخریج ابویعلی الموصلی نے کی ہے اور «رجل من اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم» کی تخریج امام أحمد رحمہ اللہ نے باسناد صحیح کی ہے۔ اور اس باب میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ایک حدیث مروی ہے جس کی تخریج ابوداؤد وطبرانی نے کی ہے اور عمرو بن عوف المزنی کی حدیث کی تخریج امام بیہقی نے ”الخلافیات“ میں کی ہے جیسا کہ فتح الباری میں مذکور ہے۔ [تحفة الأحوذي، ج2، ص244]
مزید اس روایت کو امام طبرانی نے بھی نقل فرمایا ہے اپنی مایہ ناز تصنیف المعجم الكبير میں اس حدیث کے ذکر کے بعد علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کے رجال ثقات ہیں۔ دیکھیے: [مجمع الزوائد للهيثمي، ج4، ص108]
امام ذہبی رحمہ اللہ احناف کے رد میں فرماتے ہیں:
”سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حفظ اور اداء وبیان حدیث میں سب سے فائق تھے۔ انہوں نے حدیث مصراۃ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہی میں روایت فرمائی ہیں۔ پس ہم پر لازم ہے کہ اس پر عمل پیرا ہوں کیونکہ یہ اصل خود ایک اصل ہے۔“ [سير اعلام النبلاء للذهبي، ج3، ص512]
علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ بیع مصراۃ کی حدیث کا دفاع کرتے ہوئے احناف پر احتجاجاً فرماتے ہیں:
«ان منن ردّ حديث ابي هريرة رضى الله عنه المصراة، المتفق عليه، لانه لم يكن كابن مسود وغيره من فقهاء الصحابة، فلا يؤخذ بما رواه مخالفًا للقياس، فقد آذي قائله به نفسه، وفي حكايته غنيّ عن تكلّف الرد عليه، ولا قول لأحد مع قول رسول الله صلى الله عليه وسلم كائنًا من كان، وأيا كان، وممن كان وإذا جاء نهر الله، بطل نهر معقل، وأين القياس وإن كان جليًا من السنة المطهرة؟ إنما يصار إليه عند فقد الأصل من الكتاب والخبر، لا مع وجود واحد منهما»
”جس نے مصراۃ کے بارے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی متفق علیہ حدیث کو اس واسطے رد کیا کہ وہ ابن مسعود وغیرہ کی طرح فقہاء صحابہ میں سے نہ تھے، چنانچہ ان سے وہ چیز نہ لی جائے جو قیاس کے خلاف ہو تو اس کے قائل نے خود اپنے آپ کو اذیت میں مبتلا کیا ہے۔ اس کی حکایت اس حدیث کے تکلف رد سے غنی ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مقابلے میں کسی کا قول قطعاً قابل قبول نہیں ہے۔ بلا امتیاز اس چیز کے کہ اس کا کہنے والا کون ہے؟ اس نے کیوں اور کہاں کہا ہے؟ ایک مثال ہے کہ «إذا جاء نهر الله بطل نهر معقل» (مجمع الامثال للميداني ص 58، یعنی جب اللہ کی نہر آ گئی تو معقل کی نہر باطل ہو گئی) تو پھر سنت مطہرہ کے مقابلے میں قیاس کیا شیئ ہے؟ خواہ وہ کتنا بھی جلی کیوں نہ ہو؟ اس کی طرف تو صرف اس وقت رجوع کیا جائے گا جب کہ کتاب وسنت میں اس کی کوئی اصل نہ پائی جاتی ہو۔ نہ کہ ان میں سے کسی ایک کے وجود کے ساتھ۔“ [قواعد التحديث، ص98]
لہٰذا اہل علم نے مکمل طور پر حدیث مصراۃ کا دفاع فرمایا ہے۔ مثلاً: امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کئی اعتراضات اور شکوک و شبہات کے جوابات دیے جو حدیث مصراۃ پر اٹھائے جاتے ہیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ احناف کی یہ سراسر غلطی ہے کہ انہوں نے قیاس کی وجہ سے صریح حدیث کی مخالفت کی۔ احناف نے جو تاویلات پیش کی ہیں کہ یہ حدیث ”ظن“ ہے، خبر واحد ہے، قیاس کے خلاف ہے، اصولوں کے خلاف ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ غیر فقیہ تھے، ان تمام شبہات کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«قال أنصار الحديث: كل ما ذكرتموه خطأ، والحديث موافق الأصول الشريعة وقواعدها ولو خالفها لكان أصلًا بنفسه، كلا أن غيره أصل بنفسه وأصول الشرع لا يضرب بعضها ببعض، بل يجب اتباعها كلها ويقر كل منها على أصله و موضعه فانها كلها من عندالله الذى أتقن شرعه و خلقه ما عدا هذا فهوا الخطاء الصريح ...» [اعلامه الموقيني ج2۔ ص221۔ مجموءالفتاوي لشيخ الا سلام ابن تيميه ج20، ص556]
ان دلیلوں کے جوابات:
انصار حدیث کہتے ہیں کہ تم نے جو کچھ بیان کیا ہے سب خطا ہے۔ حدیث شرعی اصول اور شرعی قواعد اور عقل سلیم کے مطابق ہے اگر بالفرض وہی ہو جو تم کہتے ہو تو بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حدیث خود ایک شرعی اصل ہے۔ آخر اصول شرعی تمہارے بنائے ہوئے تو نہیں۔ حدیث وقرآن میں ان کا بیان ہو گا پس یہ حدیث صحیح ہے تو اسی کو اصول ماننا پڑے گا۔ یہ تو محض ناممکن ہے کہ اصول شرعیہ ایک دوسرے کے خلاف ہوں۔ یہی حال کتاب اللہ میں ہے۔ دونوں چیزیں پوری واجب الاتباع ہیں۔ ہر ایک اصل وفرع اپنی اپنی جگہ حق ہے۔ کسی ایک کو دوسرے سے ٹکرانا حرام محض ہے۔ سب اللہ کی طرف سے ہیں اور اللہ غلطی سے، بھول سے پاک ہے۔ خطا وہ ہے جو قرآن وحدیث کے سوا ہو نہ وہ جو قرآن وحدیث میں ہو۔ اب تم اپنے بیان کردہ غلط اصول وفروع کی تفصیلی تردید سنو۔ اللہ تمہیں توفیق خیر دے۔
پہلی دلیل:
تم نے پہلی وجہ جو بیان کی ہے ہم تم سے پوچھتے ہیں کہ اس کی دلیل تمہارے پاس کیا ہے؟ کہ صرف یہی دو وجہیں کسی چیز کے لوٹانے کا باعث بنتی ہیں۔ ان کے سوا اور کوئی وجہ نہیں۔ تم واللہ! اس پر کوئی ایک دلیل چھوٹی سے چھوٹی بھی پیش نہیں کر سکتے۔ جب تم عاجز ہو گئے تو اب ہم تمہیں بتلاتے ہیں کہ کسی صفت کے نہ ہونے کے عیب کے سوا اور بھی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن سے بیع مردود ہو سکتی ہے۔ مثلاً تبدیلی اور دھوکہ اگر ہو تو چیز واپس کر دی جائے گی گو صفت کم نہ ہو، گو چیز میں عیب نہ ہو۔ عیب کی وجہ سے رد کرنے سے زیادہ یہ وجہ رد ہے۔ بیچنے والا کبھی تو اپنی چیز کو اپنے قول سے بیان کرتا ہے کبھی اپنے فعل سے پس اس کے خلاف جو وصف ظاہر ہو وہ یقیناًً دھوکے میں اور فریب میں اور تبدیل میں ہے اس لیے گاہک کو اختیار ہے کہ اس برائی کے ظاہر ہونے کے بعد اگر چاہے چیز کو لوٹا دے اور بیع کو فسخ کر دے۔ بالفرض یہ حکم شریعت میں نہ بھی ہوتا تاہم قیاس صحیح کا تقاضا بھی یہی تھا عدل و انصاف کا منشاء بھی یہی تھا۔ خریدار نے اس کی بات پر اطمینان کر کے چیز لی ہے اسے اگر اس کی فریب کاری کا اسی وقت علم ہو جاتا تو یہ ہرگز اسے نہ خریدتا۔ پس تدلیس اور دھوکے کے ساتھ اس بیع کو لازم کر دینا یہ تو خریدار پر ستم ڈھانا ہے جس سے اللہ کا دین یقیناًً پاک ہے۔ اس کی دلیل لیجئیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ سودا لے کر آنے والوں سے جو شخص آگے بڑھ کر کوئی چیز خرید لے حالانکہ نہ اب تک وہ بازار میں پہنچے نہ اب تک انہیں بازار کا بھاؤ معلوم ہوا ہے تو جب وہ یہاں پہنچیں اور بھاؤ تاؤ معلوم کریں اور اس میں انہیں خسارہ نظر آئے تو انہیں اختیار ہے کہ اپنا سودا واپس کر لیں، دیکھیے نہ عیب ہے نہ صفت میں کمی ہے اور واپسی کا حکم ہو رہا ہے، صرف دھوکے فریب اور چال کی وجہ سے، پھر تمہارا یہ قول کہ بیع کے واپس کرنے کی ضرورت یہی دو وجہیں ہیں کس قدر جھوٹ اور لغو ہے۔
دوسری دلیل:
جو آپ نے بیان فرمائی ہے کہ نفع اس کا ہے جس کی ذمہ داری ہو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک یہ حدیث میں مروی ہے لیکن دودھ روکے ہوئے جانور والی حدیث کا یہ حکم اس حدیث سے بھی زیادہ صحیح ہے تو پھر وجہ کیا کہ ایک حدیث کو مان کر اس سے زیادہ صحت والی حدیث کو نہ مانا جائے؟ دوسرا جواب یہ ہے کہ خراج کا لفظ حدیث میں ہے کہ خراج ذمہ داری پر ہے، خراج نام ہے غلہ کا مثلاً غلام جو نفع لائے۔ جانور کا جو کرایہ ملے وغیرہ لیکن لونڈی سے جو اولاد ہو، جانور سے جو دودھ نکلے اس کا نام خراج ہے ہی نہیں۔ پس ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض نہیں کہ تم ایک کو دوسری سے ٹکرانے بیٹھ گئے اور اپنے گھریلو مسئلے کے ثبوت کے لیے کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تردید میں لگ گئے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ اگر غلہ پر ہی اس کا قیاس کرنا مان لیا جائے تو بھی ہم کہتے ہیں کہ وہ نفع جو بوقت بیع موجود نہ تھا بلکہ بیع ہو چکنے کے بعد خریدار کے قبضے میں آکر یہ نفع ہوا ہے اور وہ چیز جو بوقت بیع موجود تھی جس پر عقد بیع ہوا ہے اسی کا ایک جز وہ چیز تھی اسے اور اسے تم نے ایک کیسے کر دیا؟
چوتھا جواب:
کون تمہارے کان میں کہہ گیا کہ یہ ایک صاع عوض ہے اس دودھ کا جو خریداری کے بعد پیدا ہوا ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ یہ عوض ہے اس دودھ کا جو بوقت عقد بیع جانور کے تھن میں موجود تھا۔ پس اسے خریدار کے ذمے ڈالنا ہی عین قیاس ہے۔
تیسری دلیل:
تم نے جو تیسری دلیل بیان کی ہے کہ دودھ کے بدلے دودھ دینا چاہیے تھا اس کا جواب ملاحظہ ہو۔ اس صورت میں جنسیت اور مثلیت بالکل محال ہے، جو دودھ تھن میں ہے وہ محفوظ ہے جو دودھ نکال لیا گیا وہ غیر محفوظ ہے۔ پس محفوظ چیز کی مثلیت و جنسیت غیر محفوظ چیز کو بتلانا کس قدر عقلمندی ہے؟ اسے تم آپ سمجھ لو بشرطیکہ شریعت کے خلاف عقل کو خرچ کرتے کرتے وہ بالکل معدوم نہ ہو چکی ہو۔ پس اگر شریعت اس محفوظ دودھ کے بدلے یہ غیر محفوظ دودھ دلواتی تو یہ سراسر عدل وانصاف اور عقل و خرد کے خلاف ہوتا اور بائع پر یہ ظلم ہوتا جسے شریعت ناپسند رکھتی ہے۔ کاش کہ یہ عقل کے کپے اسے بھی سوچتے کہ بوقت عقد جو دودھ تھا اور جو لحظہ بہ لحظہ بڑھ رہا تھا اس کا صحیح اندازہ دودھ نکالنے کے بعد کیسے ہو سکتا ہے؟ جب نہیں ہو سکتا تو پھر یہ کہنا صرف ہوا پر تیر اندازی کرنا ہے کہ اس کے برابر دودھ دے دے۔ برابری ناممکن ہے اور کمی بیشی سود میں داخل ہے کیونکہ برابری قائم نہیں رہ سکتی۔ اب اگر یہ کہا جاتا کہ اس دودھ کا اندازہ کر لیا جائے تو پھر مصیبت اور بڑھ جاتی ہے۔ یہ کچھ اندازہ لگاتا اور وہ کچھ اور ہی لگاتا۔ دن رات مسلمانوں میں جوتی پیزار ہوتی رہتی۔ شارع علیہ السلام کے حکم کے قربان جائیں رُواں رُواں ان پر فدا ہو جنہوں نے یہ سب جملے مٹانے کے لیے ایک قانون مقرر کر دیا کہ نہ یہ کچھ بول سکے نہ وہ۔
پانچواں جواب یہ ہے کہ دودھ کے بدلے کھجوریں دلوانے میں بھی ایک خاص حکمت ہے۔ اہل مدینہ کی خوراک جیسے دودھ تھا ویسے ہی کھجوریں بھی تھیں۔ پس ایک کو دوسرے کے بدلے دلوا دیا۔ یہ وجہ بھی ہے کہ جیسے دودھ ناپ کی چیز ہے کھجوریں بھی ناپ کی چیز ہیں۔ شارع علیہ السلام کی حکمتوں کو ہماری عقلیں کہاں پا سکتی ہیں؟ اگر تم غور کرو تو دیکھوگے کہ اگر اناج دلوایا جاتا تو اس میں بھی بائع پر ایک مشقت تھی، کہاں اسے صاف کرتا، جب پسواتا کب روٹی پکتی کب کھائی جاتی۔ پس شریعت نے کھجوریں مقرر کیں کہ جیسے دودھ بلا مشقت پی لیا جاتا ہے، کھجوریں بھی بلا تکلیف کھا لی جاتی ہیں۔ پس دودھ سے قریب تر یہی چیز ہے۔ اس پر اگر ان میں سے کوئی بول اٹھے کہ اچھا صاحب اگر کسی جگہ کھجور وہاں کے لوگوں کی خوراک میں داخل نہ ہو تو؟ ہم کہتے ہیں گو بعض کے نزدیک کھجوریں ہی ضروری ہیں، لیکن بعض کا فتویٰ ہے کہ نہیں وہاں والوں کی جو خوراک ہو وہ دے دے تاکہ مقصود کا حل بآسانی ہو جائے جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرے میں پانچ قسم کے اناجوں کا نام لے دیا کہ ہر جگہ والے اپنے ہاں کی خوراک دے سکیں۔ شریعت کے اصول وقواعد سے ملتی چیز یہی ہے اور یہ کوئی انوکھی تخصیص بھی نہیں، نہ بے دلیل ہے پس اعتراض کوئی چیز نہ رہا۔
ان کا پانچواں اعتراض ضمنی تھا جس کے جواباتِ ضمنی بھی گزر چکے۔ فالحمدللہ!
ان دلائل کے جوابات:
ابن القیم رحمہ اللہ نے احناف کے مذموم اصول کے خلاف اعلام الموقعین میں کئی ایک دلائل دیے اور ان کے بے سراپا اور بے جوڑ اصولوں کو تار عنکوب سے بھی زیادہ کمزور گردانا ہے۔ دراصل احادیث صحیحہ وصریحہ کے رد کے خلاف جتنے بھی یہ اصول ہیں یہ سب کے سب تعصب اور حسد کی وجہ سے فروغ پائے ہیں اور ان جعلی اصولوں کی داغ بیل ڈالی گئی ہے۔ ورنہ ان بے اصولوں کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔
محترم عبدالقادر حبیب اللہ السندی حفظہ اللہ (تنزيل المدينة النبوية الشريفة) اپنی کتاب دفاع عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ میں رقمطراز ہیں:
«فقلت هكذا رد حافظ على الحنفية فى رد حديث أبى هريرة المرفوع وأثر ابن مسعود ولموقوف عليه ولم يكن القياس الجلي أو الخفي عند ابن مسعود ولا عند الصحابة جميعًا وانما هو اصطلاح جديد قال به من قال من أصحاب الرأي متاثرين بما جاءهم من منطق اليونان، وفلسفهم الطاغية المادية» [دفاع عن أبى هريرة، ص102]
”میں کہتا ہوں (حبیب اللہ) اسی طرح سے حافظ رحمہ اللہ نے احناف کا رد کیا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث سے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اثر کے ذریعے جو ان تک موقوف ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک قیاس جلی اور قیاس خفی کی کوئی حیثیت نہ تھی اور نہ دیگر صحابہ کے نزدیک۔ دراصل یہ اصطلاح (جس کے ذریعے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث رد کی جارہی ہے) یہ نئی اصطلاح ہے جو کہ اصحاب رائے کی ایجاد ہے جو کہ یونانی فلسفہ اور مادّی طواغیت سے متاثر ہوکر بنائی گئی ہے۔۔۔“
اس مسئلے میں کوئی تردد نہیں ہے کہ یہ تمام اصطلاحات ظن کی بحث، اخبار احاد سے استدلال کا اخذ نہ کرنا، راوی کا فقیہ ہونا وغیرہ وغیرہ یہ سب احناف اور متاخرین متعصب کی ایجاد کردہ ہیں، جن کی سلف سے کوئی دلیل نہیں پائی جاتی ہے۔ باقی رہا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فقاہت کے بارے میں تو اہل علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کئی ایک علماء نے ان کے مسائل سے شدید اختلاف کیا ہے۔ امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ (المتوفي 235ھ) نے اپنی کتاب ”المصنف“ میں ایک سو چوبیس مسائل کا ذکر کیا ہے جس میں امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے مذہب کو حدیث کے خلاف ثابت فرمایا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا مقام اپنی جگہ مگر علم، زھد، تقویٰ، ورع میں ہرگز وہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی فقاہت آپ کا حافظہ یہ روشن چاند کی مانند ہے یہ وہ صحابی ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دی تھی جس کا ذکر امام حاکم رحمہ اللہ نے المستدرک حاکم میں فرمایا ہے۔
لہٰذا صحابی رسول کے لیے اپنی زبان کو دست درازی سے بچانا چاہیے۔ شریعت کا کوئی مسئلہ اگر آپ کی سوچ اور سمجھ سے بالا تر ہو تو اسے رد کرنے کی جگہ یا اس کی تاویل دینے کے بجائے اپنی سوچ کو اس کے تابع کر دینا چاہیے۔ یہ تو حدیث مصراۃ ہے اگر احناف کے ان مسائل کا ہم ذکر کریں جو کہ کسی بھی طریقے سے عقل سلیم کے مطابق نہیں اور نہ ہی کسی شریعی تقاضوں کے مطابق ہے تو پھر ہم سے شکوہ کیا جائے گا اور اس کے دفاع کے لیے ایسے حیلوں اور بہانوں کا سہارہ لیا جائے گا جس کا نہ سر ہو گا اور نہ ہی پیر۔ لیکن پھر بھی ایسے مسائل ذکر کرنے والے فقیہ ہوں گے۔۔۔۔
علامہ جندی مشہور قاضی خان کے متعلق حضرت انور شاہ کی رائے یہ ہے: ”ان کا مقام صاحب ھدایہ سے بھی اونچا ہے۔“ [فيض الباري: 186/1]
اب ذرا قاضی خاں صاحب کی فقاہت اور دینی خدمت دیکھیے: «رجل قال لامرأته ان لم يكن فرجي أحسن من فرجك فأنتِ طالق، وقالت المرأة ان لم يكن فرجي أحسن من فرجك فجاريتي حرة، قال للشيخ الامام أبوبكر محمد بن الفضل رحمه الله ان كان قائمين عند المقالة برّت المرأة، وحنث الزوج وإن كانا قاعدين بر الزوج وحنثت المرأة لأن فرجها حالة القيام أحسن من فرج الزوج والأمر على العكس حالة القعود» [قاضي خان: 421/1، باب التعليق]
اہل علم غور فرمائیں اس مسئلے میں قاضی خاں صاحب کی کون سی فقاہت دکھلائی دیتی ہے، کیا یہ دینی مسائل کا حل ہے یا پھر اسلام کو باذیچہ اطفال بنانے کی جستجو؟ مزید سنیے: «رجل تزوج امرأة وطلقها من ساعة فجاءت بولد على تمام ستة أشهر من وقت النكا ح كان الولد ولده عندنا خلفًا لزفر» [قاضي خان: 315/1]
حنفی علماء ان مسائل کو کھینچ تان کر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر حقیقت پسند مزاج اور منصف سوچ کا حامل ان معاذیر سے ہرگز مطمئن نہیں ہو گا۔
ایسے ان گنت مسائل ہیں اوراق اجازت نہیں دیتے ورنہ ہم ان مسائل کا ذکر یہاں کرتے۔ راوی کے فقیہ ہونے کی شرط کو قاضی عیسیٰ ابن ابان نے اچھالا ہے اور اس تیز ترین چھری سے صحابہ کی مرویات کو بھی ذبح کر دیا گیا اور ان کے یہ اصول احادیث کے لیے مستقل خطرہ بن گئے۔ اس قسم کے خطرات کو پیدا کرنے والے اور اس آگ کو ہوا دینے والے، بشر مریسی 328ھ، قاضی عیسیٰ بن ابان 221ھ، قاضی بشر بن ولید کندی ہیں۔ بشر مریسی وہی شخص ہے جنہوں نے مامون کے دربار میں شیخ عبدالعزیز کنانی سے خلق قرآن پر مناظرہ کیا۔
امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ ان کے بارے میں انکشاف فرماتے ہیں جو کہ تعجب کے لائق ہے: «اخبرت عن يحييٰ بن ايوب قال كنت اسمع الناس يتكلمون فى المريسي فكرهت ان أقدم عليه حتي اسمع كلامه لأقول فيه بعلم فأتيته فإذا هو يكثر الصلاة على عيسيٰ بن مريم عليهما السلام فقلت له انك تكثر الصلاة على عيسيٰ عليه السلام . فأهل ذالك هو ولا أراك تصلي على نبينا ونبينا أفضل منه؟ فقال لي ذالك كان مشغولًا بالمرأة والمشط والنساء» [كتاب السنة، ج1، ص 30]
”یحییٰ بن ایوب فرماتے ہیں یہ لوگ بشر مریسی کے متعلق باتیں کرتے تھے۔ میں نے ذاتی علم کے بغیر کوئی اقدام مناسب نہ سمجھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ سیدنا مسیح علیہ السلام پر بہت درود پڑھتا تھا۔ میں نے کہا: یقیناًً سیدنا مسیح علیہ السلام درود کے اہل ہیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے زیادہ افضل ہیں۔ اس نے کہا: ”وہ شیشہ، کنگھی اور عورتوں میں ہی مشغول رہتے تھے۔““ اندازہ کیجیے اس قسم کے عقائد اور نظریات کے آدمی کو کیا کہا جائے گا؟ کیا یہ ذندیقیت نہیں ہے؟ اس کے زندیق ہونے کے بارے میں [الفوائد البهية، صفحه 26، الجواهر الضيئة، ج1، ص 164] میں بھی موجود ہے۔
امام ذھبی رحمہ الله فرماتے ہیں: «بشر بن غياث المريسي مبتدع ضال لا ينبغي ان يروي عنه تفقه على ابي يوسف فبرع و اتقن علم الكلام ثم جرد القول بخلق القرآن و قال قتيبة بشر المرسي كافر» [ميزان الاعتدال۔ ج1۔ ص150]
”یعنی بشر مریسی بدعتی گمراہ ہے، اس سے روایت درست نہیں۔ امام ابویوسف سے فقہ پڑھی۔ مہارت کے بعد خلق قرآن کا قائل ہوگیا، اور قتیبہ نے کہا: کہ مریسی کافر ہے۔“
محترم قارئین! اندازہ لگایئے، راوی کے فقیہ ہونے کی شرط جن بزرگوں نے لگائی ہے ان کی فقاہیت کا حال کیا ہے۔ جو خود زندیق ہو، اس کے اصول کیوں کر حجت ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود احناف کے نزدیک یہ لوگ معتبر ہیں۔ کیونکہ ان کی وجہ سے امام صاحب کا مسلک مضبوط ہورہا ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ ایک عبرتناک واقعہ رقم فرماتے ہیں، آپ لکھتے ہیں:
”ایک مرتبہ ہم جامع منصور میں بیٹھے تھے کہ خراسان کا ایک حنفی نوجوان آیا اور اس نے مصراۃ (دودھ روکا ہوا جانور جس کے راوی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں) کے بارے میں سوال کیا۔ جواب دینے والے نے جواب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مصراۃ کے بارے میں حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اسے جواب دیا تو حنفی نوجوان کہنے لگا ابوہریرہ کی حدیث تو مقبول نہیں ہوتی۔ قاضی ابوطیب کہنے لگے ابھی وہ اپنی بات مکمل کر نہیں پایا کہ مسجد کی چھت سے ایک بڑا سانپ گرا جسے دیکھ کر لوگ بھاگ کھڑے ہوئے، تو لوگوں نے اسے کہا: کہ توبہ کرو، توبہ کرو۔ چنانچہ اس نوجوان نے کہا: کہ میں توبہ کرتا ہوں، تو سانپ غائب ہو گیا اور اس کا کوئی نام و نشان نظر نہیں آیا۔“ [تاريخ الاسلام للذهبي، ج4، ص354، سير اعلام النبلاء، ج2، ص619]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ واقعہ ذکر کرنے کے بعد اس کی صحت کے بارے میں فرماتے ہیں: «اسنادها أئمة» ”یعنی سند کے تمام رواۃ امام ہیں۔“
مذکورہ بالا واقعہ میں کئی نصیحت کے پہلو ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہتے ہیں انہیں اس واقعہ سے نصیحت کو حاصل کرنا چاہیے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ تھے اور آپ کی منزلت اور شان رفعت والی تھی۔ آپ کا مقام بلند تھا، آپ احادیث مبارک کے بیان کرنے میں مکمل احتیاط اور صدق سے کام لیتے ہیں۔ متاخرین نے جو بھی باطل شرائط عائد کی ہیں صاحب دراسات اللبیب نے بڑے احسن انداز سے مختصراً ان شرائط کی گرفت فرمائی ہے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
➊ فقہ راوی کو تحمل اور صدق روایت میں کوئی اثر نہیں۔
➋ صحابہ میں یہ امکان ہی نہیں کہ روایت بالمعنی میں ایسی غلطی کریں جس سے حدیث کا مقصود فوت ہو جائے۔
➌ جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ضبط کرنے کی کوشش فرماتے ہیں وہ کیونکر معنی ادا کرنے میں غلطی کریں؟
➍ وہ لوگ اہل زبان تھے ان سے ادائے معنی میں غلطی کا احتمال کہاں ہو سکتا ہے؟ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جیسا دانشمند آدمی جس کی طرف بوقت ضرورت تبادلہ ایسے فقہاء صحابہ رجوع فرماتے تھے۔
➎ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں حفظ کے لیے دعا فرمائی تھی جس کا اثر یہ ہوا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے اس کے بعد نسیان نہیں ہوا۔
➏ جو لوگ صحیحین کے رجال کے خصائص کو جانتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ ان میں ادنیٰ اور معمولی آدمی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی غلط تعبیر نہیں کر سکتا۔
➐ آخر میں صاحب دراسات اللبیب فرماتے ہیں: «ولهذا قال شيخ الحنفية صاحب الكشف والتحقيق فى التحقيق: ولم ينقل عن أحد من السلف اشتراط الفقه من الراوي فثبت انه قول مستحدث بمثل هذا لا ينسب إلى أبى حنيفة رحمه الله» [دراسات اللبيب، ص315۔ 316]
شیخ ابن ہمام جو احناف میں محقق ہیں اور صاحب کشف اور کرامات بھی ہیں، فرماتے ہیں فقہ راوی کی شرط ائمہ سلف میں کسی سے بھی منقول نہیں۔ لہٰذا یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ من گھڑت اصول ہے ایسی بات امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی۔ درحقیقت فقہ راوی کی شرائط یہ بعد کے لوگوں نے ایجاد کہ ہیں۔ متقد میں میں اس کا کوئی نشان تک نہیں نہ تھا۔
مزید جب ہم غور کرتے ہیں اور تحقیق کرتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ ”حدیث مصراۃ“ ہر اعتبار سے محقق ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم میں بہتر وہ ہے جو قرض اچھے طریقے سے ادا کرے۔ اب اگر کسی نے دودھ والا جانور خریدا اور اسے واپس کر دے تو جو دودھ اس نے استعمال کیا اس کی جگہ ایک صاع کھجور دے دے۔
اگر غور کیا جائے تو یہاں پر دودھ کی جگہ کھجوریں اس لیے دی جا رہی ہیں دودھ جو استعال ہوا اچھے طریقے سے اس کے عوض کی ادائیگی ہو جائے۔ کیونکہ دودھ سے زیادہ کھجوروں میں انسانی جسم کے فوائد ہیں۔
دودھ اور کھجور کے فوائد جدید تحقیقات کی روشنی میں:
دودھ کے چھ فوائد ہیں جسے میڈیکل سائنس نے پروف کیا:
Vitamine: A
Vitamin D
Vitamine E
Vitamin K
Vitamine B
Vitamine C
① Growing Skin
② Heathing Bones and teeth
③ Muscles
④ Weight loss
⑤ Less Stress
⑥ Healthy Body
یہ چھ فوائد دودھ کے ہیں، اب کھجور کے فوائد دیکھیے۔
کھجوروں کے استعمال سے صحت کے فوائد:
① کھجور کولیسٹرول سے آزاد ہیں اور بہت کم چربی پر مشتمل ہے۔ کھجور وٹامن اور معدنیات سے مالامال ہیں۔
② وہ مالامال ہے پروٹین، غذائی ریشہ اور بی1، بی2، بی3 اور بی5 کی دولت کے ساتھ ساتھ وئٹامین اے 1 اور سی سے بھی۔
③ یہ عمل انہضام کے نظام کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔ جیسا کہ یہ انتہائی گھلنے والے اور نہ گھلنے والے ریشہ اور امینوایسڈ مختلف قسم پر مشتمل ہے۔
④ کجھوریں بہترین توانائی کا ذخیرہ ہے کیونکہ یہ مشتمل ہے قدرتی شکر، گلوکوز، سکروس اور فرکٹوز۔ کھجوریں کیلوری میں بہت کم ہیں اور صحت کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔
⑤ تواریخ پوٹاشیم سے بھرپور ہیں اور سوڈیم میں کم۔ یہ ایک صحت مند اعصابی نظام کو منظم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ پوٹاشیم کی ایک خاص حد تک مقدار فالج کے خطرے کو کم کرسکتی ہے۔ کھجوریں ایل ڈی ایل کولیسٹرول کی مقدار کو کم کرنے میں مدد بھی کرتی ہے۔
⑥ کھجوریں اعلی آئرن مواد ہے اور انیمیا کے علاج میں بہت مفید ہیں۔ مریض بہت سی کھجوریں کھا سکتے ہیں اچھی صحت کے لیے۔ کھجوروں میں فلورین ہوتا ہے جو دانتوں کے گرنے کے عمل کو آہستہ کر دیتا ہے۔
⑦ یہ قبض میں مبتلا لوگوں کی بھی مدد کرتی ہے۔ رات میں کھجور بھگو دیں اور اس کو پانی کے ساتھ لینا بہت سے فائدے بڑھا دیتا ہے۔
⑧ یہ کسی کی جنسی صلاحیت کو بڑھانے میں مدد کرتا ہے۔ ایک مٹھی کھجور رات کو بکری کے دودھ میں بھگو دیں اور صبح ان کھجوروں کو پیس لیں دودھ میں اور اس میں شہد اور الائچی پاؤڈر ملا کر پی جائیں۔
⑨ کھجوریں مدد کرتی ہیں وزن بڑھانے میں اور فائدہ مند ہے ان لوگوں کے لیے جو بہت زیادہ دبلے پن کا شکار ہیں۔
⑩ پیٹ کے کینسر کا علاج۔ بہتر ین چیزیہ ہے کہ اس کا کوئی برا اثر نہیں ہوتا جسم پر اور یہ مکمل قدرتی ہے جو کہ ادویات سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ یہ نظر بڑھانے میں بھی مدددیتی ہے اور رات کے اندھے پن کو کم کرنے میں بھی۔
مزید اگر ہم تحقیق کرتے ہیں تو برلن یونیورسٹی کے شعبہ فارمالوجی کے ڈاکٹروں نے کھجوروں کے استعمال پر طویل تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر روزانہ حاملہ خواتین کو کھجوریں استعمال کروائی جائیں تو اس کا اثر حاملہ کے تمام اعضاء پر مثبت پڑے گا اور ساتھ ہی بچے کو تقویت پہنچتی ہے۔ جو خواتین حمل کے دوران کھجور کا استعمال کریں گی ان کے حمل کی پیچیدگیاں ختم ہوجائیں گی اور وضع حمل کے خطرات کم ہوجائیں گے۔ (Science and our world) بقائی میڈیکل یونیورسٹی کی ڈاکٹر شیریں اعجاز نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے اسّی (80) ماؤں کو کھجور کھلانے کا تجربہ کیا، جس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ بقائی میڈیکل کی ٹیم روزانہ انہیں گھر گھر جاکر سات کھجوریں کھلاتی ہے انہوں نے بتایا کہ اس تجربے کو کھجور پروجیکٹ کا نام دیا گیا ہے۔ پیدائش ہوئی تو وہ وزن کے لحاظ سے پہلے بچے سے 8 کلو گرام زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کھجور کھانے والی ماں کا بچہ 40 سال کی عمر کو پہنچے کے بعد فشار خون اور ذیابطیس سے محفوظ رہتا ہے۔
100 گرام کھجور میں پائے جانے والی غذائی اجزاء پر تحقیق:
غذائی اجزاء مقدار غذائی اجزاء مقدار حرارے 319 کیلشیئم 15 ملی گرام
لحمیات 9، 3 گرام فاسفورس 30 ملی گرام چکنائی 08 گرام لوہا 3، 1 ملی گرام نشاستہ دار اجزاء 2، 38 گرام تھائیاسین 7، 0 ملی گرام ریشہ 7، 1 گرام ربوفلیوین 5، 0 ملی گرام راکھ 1، 1 گرام نائیاسین 6، 0 ملی گرام وٹامن سی 6 ملی گرام [سنت نبوي صلى الله عليه وسلم جديد سائنسي تحقيقات كي روشني ميں، ج3، ص281]
الحمد للہ ان تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ حدیث مصراۃ بالکل صحیح ہے اور صحابی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جو اس حدیث کے راوی ہیں وہ اعلی قسم کے فقیہ ہیں، ہم احادیث کی روشنی میں ہر اس اصول کو کچل دیں گے جو صحابی رسول پر افترا کرنے اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رد کرنے کے لیے ایجاد ہوا۔ ان شاء اللہ
محترم قارئین! ہم نے اپنی تحریر میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حدیث مصراۃ ہر اعتبار سے ٹکسالی ہے، ایمان کا تقاضہ یہی ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان آجائے تو ہمیں بغیر کسی قیل وقال کے اسے تسلیم کرنا چاہیے، اسی میں اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی کا راز ہے۔
حدیث مصراۃ پر مزید معلومات کے لیے ان کتب کی طرف مراجعت فرمائیں: [سير اعلام النبلاء، ج2، ص619 فتح الباري، ج4، ص 360 361 عون المعبود، ج2، ص284 تحفة الأحوذي، ج2، ص 244 245]، [مصنف عبدالرزاق، ج7، ص235 اعلام الموقعين، ج2، ص284 كتاب الام للشافي، ج7، ص172، شرح نووي، ج2، ص5 كنز العمال للهندي، رقم 9976، المحلي لابن حزم، ج9، ص67 المغني لابن قدامة، ج34، ص135 مختصر المزني، ج2، ص184، حجة الله البالغة، ج2، ص111 التعليقات السلفية على النسائي، ج2، ص207، اتحاف السامع للشيخ أبى الحارث ناحر بن سعيد بن مبارك]
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 306
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 681
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کا دودھ فروخت کرتے وقت ان کے تھنوں میں روکے نہ رکھو۔ جو شخص ایسا جانور خرید لے تو اسے دو باتوں میں سے بہتر کے اختیار کرنے کا حق حاصل ہے، چاہے اس جانور کو اپنے پاس رکھ لے اور چاہے تو ایک صاع کھجور ساتھ دے کر واپس کر دے۔“ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی روایت میں ہے کہ اسے تین دن تک اختیار ہے اور مسلم کی ایک روایت میں ہے، جسے بخاری نے تعلیقا نقل کیا ہے کہ ”اس کے ساتھ ایک صاع کسی کھانے والی چیز سے واپس کرے، گندم نہیں۔“ بخاری نے کہا کہ اکثر روایات میں کھجور کا ذکر ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 681»
تخریج: «أخرجه البخاري، البيوع، باب إن شاء رد المصراة، حديث:2151، ومسلم، البيوع، باب حكم بيع المصراة، حديث:1524.»
تشریح:
1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجوریں ساتھ واپس دینے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ اس جانور سے حاصل کردہ دودھ کا معاوضہ ہو جائے کیونکہ کچھ دودھ تو خریدار کی ملکیت میں آنے پر پیدا ہوا ہے اور کچھ دودھ بیع میں آیا ہے۔
اب چونکہ خریدار کو یہ تمیز کرنا دشوار ہے کہ کتنا دودھ خریدا ہوا ہے اور کتنا نیا داخل ہے‘ چنانچہ عدم تمیز کی بنا پر اسے واپس کرنا یا اس کی قیمت واپس کرنا ممکن نہیں تھا‘ اس لیے شارع علیہ السلام نے ایک صاع مقرر فرما دیا کہ فروخت کرنے والے اور خریدار کے مابین تنازع اور جھگڑا پیدا نہ ہو۔
خریدار نے جو دودھ حاصل کیا ہے اس کا معاوضہ ہو جائے‘ قطع نظر اس سے کہ دودھ کی مقدار کم تھی یا زیادہ۔
(ملا علی قاری بحوالہ مرقاۃ) 2.جمہور اہل علم تو حدیث کے ظاہر کی جانب ہی گئے ہیں اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ نے بھی فتویٰ اسی کے مطابق دیا ہے اور کسی صحابی سے اس کی مخالفت بھی ثابت نہیں‘ البتہ اکثر احناف نے اس مسئلے میں ان کی مخالفت کی ہے۔
لیکن وہ کوئی ایسی چیز پیش نہیں کر سکے جو ان کے لیے مفید ہو۔
اور انھوں نے اس میں بڑا تشدد اختیار کیا ہے‘ یہاں تک کہ اسی کو انھوں نے کسوٹی بنا لیا ہے جس پر وہ دوسروں کو جانچتے پرکھتے رہتے ہیں
(اور وہ کسوٹی یہ ہے) کہ کون موافقت کر کے ان کے امام کی تعظیم کرتا ہے اور کون مخالفت کر کے ان کے امام کی توہین کرتا ہے حتیٰ کہ انھوں نے ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق قلت درایت اور عدم فقاہت کا طعن محض اس حدیث کو روایت کرنے کی بنا پر کیا‘ انھیں غیر فقیہ اور درایت سے خالی گردان دیا‘ باوجودیکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی نہ صرف اس روایت کو بیان کیا ہے بلکہ انھوں نے تو ایسا فتویٰ بھی دیا ہے جبکہ ان کے فقیہ ہونے میں احناف کو بھی اختلاف نہیں۔
فَإِلَی اللّٰہِ الْمُشْتَکیٰ۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 681
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3445
´کوئی شخص ایسا جانور خریدے جس کے تھن میں کئی دن کا دودھ اکٹھا کیا گیا ہو اور بعد میں اس دھوکہ کا علم ہونے پر اس کو یہ بیع ناپسند ہو تو کیا کرے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے تھن میں دودھ جمع کی ہوئی بکری خریدی اسے دوہا، تو اگر اسے پسند ہو تو روک لے اور اگر ناپسند ہو تو دوہنے کے عوض ایک صاع کھجور دے کر اسے واپس پھیر دے۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3445]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
فرامین رسول ﷺ بلاچون وچرا واجب التعمیل ہیں۔
انہیں اپنی رائے اور ظن وتخمین سے رد کرنا کسی مسلمان کے لائق نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3445
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2239
´مصراۃ کی بیع کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے «مصّراۃ» خریدی تو اسے تین دن تک اختیار ہے، چاہے تو واپس کر دے، چاہے تو رکھے، اگر واپس کرے تو اس کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی واپس کرے“، «سمراء» (یعنی گیہوں) کا واپس کرنا ضروری نہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2239]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بعض لوگ جب دودھ دینے والا جانور بیچنا چاہتے ہیں تو دو تین دن پہلے اس کا دودھ دوہنا بند کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے تھنوں میں دودھ خوب جمع ہو جاتا ہے اور بڑے بڑے تھن دیکھ کر خریدار سمجھتا ہے کہ یہ گائے، بھینس، بکری یا اونٹنی زیادہ دودھ دینے والی ہے۔
اس طرح وہ زیادہ قیمت دے کر اسے خرید لیتا ہے۔
یہ ایک قسم کا دھوکا ہے۔
اور دھوکا دینا حرام ہے۔
(2)
اس بیع کو فسخ کرنے کے لیے تین دن کی مدت مقررکی گئی ہے کیونکہ پہلے دن دودھ دوہنے سے تو اس دھوکے کا علم نہیں ہوتا۔
دوسرے دن دودھ کم ہونے پر یہ سوچا جا سکتا ہے کہ شاید ماحول کی تبدیلی یا چارے میں کمی بیشی کی وجہ سے ہے۔
جب تیسرے دن بھی دودھ کم ہو گا تو اس کا مطلب ہے کہ دودھ واقعی روکا گیا تھا اور اس طرح دھوکے کا ارتکاب ہوا ہے۔
(3)
واپسی کے وقت ایک ٹوپا کھجوریں دینے کا حکم اخلاقی بنیاد پر ہے تاکہ سودا فسخ ہونے پر اگر بیچنے والے کو ناراضی محسوس ہو تو اس کا کسی حد تک مداوا ہو جائے۔
یہ اس دودھ کی قیمت نہیں جو تین دن تک استعمال کیا گیا۔
خریدار نے اگر دودھ پیا ہے تو جانور کو چارا بھی کھلایا ہے اور اس کی لازمی ضروریات کا خیال بھی رکھا ہے۔
(4)
بعض حضرات نے اس حدیث کو فقہی اصولوں کے خلاف قرار دے کر نا قابل عمل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
وہ کہتے ہیں:
جب کوئی چیز استعمال کر لی گئی ہو تو اس کا متبادل یا تو ویسی اور اتنی ہی چیز ہو سکتی ہے یا اس کی قیمت، جبکہ کھجوریں نہ تو دودھ کی مثل ہیں، نہ اس کی قیمت کیونکہ دودھ کم زیادہ ہوتا ہے اور ہر مقدار کی قیمت ایک صاع کھجوریں نہیں ہو سکتیں۔
حقیقت یہ ہے کہ فقہی اصول قرآن و حدیث کی نصوص سے اخذ کیے جاتے، نصوص کو فقہی اصولوں پر نہیں پرکھا جاتا کیونکہ قرآن و حدیث اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ارشادات ہیں اور فقہی اصول انسانی ذہن کی کاوشوں کا نبیجہ، اس کے علاوہ یہ حدیث فقہی اصولوں کے خلاف بھی نہیں اس کی وضاحت یہ ہے کہ خریدار نے جو دودھ استعمال کیا ہے اس کی مقدار پر اختلاف ہو سکتا ہے۔
خریدار کم مقدار کا دعویٰ کرے گا جبکہ بیچنے والا زیادہ مقدار کا۔
جب مقدار ہی متعین کرنا مشکل ہے تو اس کی مثل یا قیمت کا تعین کیسے ہو سکتا ہے؟ اس جھگڑے کا حل کے لیے نبی ﷺ نے ایک اوسط مقدار متعین کر دی ہے کہ دودھ کم ہو یا زیادہ، ایک صاع کھجوریں وصول کر لی جائیں اور اصل مطلوب سے کمی بیشی کونظر انداز کر دیا جائے۔
گویا یہ بذات خود ایک قانون ہے جو ان خاص حالات کے لیے وضع کیا گیا ہے۔
اسے عام حالات کے عام قوانین پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔
(5)
کہا جاتا ہے کہ فقیہ راوی اگرکوئی ایسی حدیث روایت کرے جو قیاس کے خلاف ہو تو اس کی یہ روایت قبول ہو گی لیکن اگر کوئی غیر فقیہ صحابی خلاف قیاس حدیث روایت کرے تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔
یہ اصول بھی محل نظر ہے، کیونکہ حدیث کی صحت کا دارومدار راوی کے حافظے اور ثقاہت پر ہے نہ کہ تفقہ اور قوت استنباط پر، اس کے علاوہ یہ حدیث صرف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی نہیں جنہیں غیر فقیہ قرار دینے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے، بلکہ یہی حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے بھی مروی ہے جو بالاتفاق فقیہ ہیں۔
اور کہا جاتا ہے کہ فقہ حنفی کا دارومدار حضرت ابن مسعود ؓ کے فتوے پر ہے۔ دیکھیے: (صحيح البخاري، البيوع، باب النهي للبائع ان لايحفل الاإبل والبقر والغنم وكل محلفلة، حديث: 2149)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2239
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1251
´جس جانور کا دودھ تھن میں روک دیا گیا ہو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کوئی ایسا جانور خریدا جس کا دودھ تھن میں (کئی دنوں سے) روک دیا گیا ہو، تو جب وہ اس کا دودھ دو ہے تو اسے اختیار ہے اگر وہ چاہے تو ایک صاع کھجور کے ساتھ اس کو واپس کر دے“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1251]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ایک صاع کھجورکی واپسی کا جوحکم دیا گیا ہے اس لیے ہے کہ اس جانورسے حاصل کردہ دودھ کا معاوضہ ہوجائے کیونکہ کچھ دودھ توخریدارکی ملکیت میں نئی چیزہے اورکچھ دودھ اس نے خریدا ہے اب چونکہ خریدارکو یہ تمیزکرنا مشکل ہے کہ کتنا دودھ خریدا ہوا ہے اورکتنا نیا داخل ہے چنانچہ عدم تمیزکی بنا پراسے واپس کرنا یا اس کی قیمت واپس کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے شارع نے ایک صاع مقررفرما دیا کہ فروخت کرنے والے اورخریدارکے ما بین تنازع اورجھگڑا پیدا نہ ہو خریدارنے جو دودھ حاصل کیا ہے اس کا معاوضہ ہوجائے قطع نظراس سے کہ دودھ کی مقدارکم تھی یا زیادہ۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1251
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3830
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مصراۃ جانور خریدا وہ اسے گھر لائے اور اس کا دودھ نکالے، اگر اس کا نکالا ہوا دودھ پسند ہو تو اپنے پاس رکھ لے، وگرنہ وہ جانور واپس کر دے اور اس کے ساتھ کھجوروں کا ایک صاع دے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3830]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
مُصراة:
تصریہ کا معنی ہوتا ہے روکنا،
بند کرنا،
تو معنی یہ ہوا دودھ والے جانور کا دودھ اس کے تھنوں میں روک دیا جائے تاکہ تھن بھرے بھرے نظر آئیں کہ خریدار سمجھے کہ یہ جانور بہت دودھ دیتا ہے،
اس لیے خرید لے۔
فوائد ومسائل:
امام مالک،
امام شافعی،
امام احمد،
امام ابو یوسف اور جمہور علماء کے نزدیک،
تصریہ کرنا دھوکا اور عیب ہے،
اس وجہ سے مشتری کو یہ سودا فسخ کرنے کا حق حاصل ہے اور امام احمد،
امام شافعی کے نزدیک رد کرنے کی صورت میں کھجوروں کا صاع واپس کرنا ہو گا۔
امام مالک کے نزدیک اپنے اپنے علاقہ کے غلہ کا صاع دینا ہو گا اور ایک قول شافعی کے مطابق ہے۔
اور امام ابو یوسف کے نزدیک جو دودھ نکالا ہے اس کی قیمت ادا کرنا ہو گی۔
امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک تصریہ عیب نہیں ہے،
اس لیے بیع فسخ نہیں ہو سکتی،
ہاں مشتری جانور کی قیمت کم کر سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر تصریہ عیب نہیں ہے تو قیمت میں کمی کیوں؟ مولانا انور شاہ نے اس حدیث کو دیانت پر محمول کیا ہے کہ تصریہ دھوکا ہے،
اس لیے بائع کے دین کا تقاضا یہی ہے کہ اگر مشتری جانور واپس کرنا چاہے تو اس کو واپس لے لے،
اور مولانا ظفر احمد عثمانی نے اس کو امام وقت کی رائے پر چھوڑا ہے،
اور تقی عثمانی صاحب نے صاع کی واپسی کو تو امام وقت پر چھوڑا ہے اور جانور کی واپسی کو شرعی اصول تسلیم کیا ہے اور اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ یہ حدیث اصول صحیحہ کے منافی نہیں ہے جیسا کہ احناف کا دعویٰ ہے،
کیونکہ تصریہ دھوکا ہے۔
اس لیے مشتری کو اختیار ملنا چاہیے۔
(تکملہ فتح الملہم:
ج1/ ص 343 تا 345)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3830
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3831
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے مصراۃ بکری خریدی تو اسے تین دن تک اختیار ہے، چاہے تو اس کو رکھ لے اور چاہے تو اسے واپس کر دے اور اس کے ساتھ کھجوروں کا ایک صاع دے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3831]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
تین دن تک جانور کا دودھ نکالنے سے صحیح صورت حال کا تعین ہو جاتا ہے،
اس لیے شریعت نے تین دن کی مہلت دی ہے،
اگر پہلے یقین ہو جائے تو پہلے واپس کر سکتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3831
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3835
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی ایک مصراۃ اونٹنی یا مصراۃ بکری خریدے تو وہ دودھ دوہنے کے بعد دو چیزوں کا اختیار رکھتا ہے جانور رکھ لے یا اس کو واپس کر دے اور ساتھ ایک صاع کھجور دے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3835]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عام روایت میں کھجور کا صاع واپس کرنے کا حکم ہے اور بعض میں طعام کا تذکرہ ہے،
لیکن گندم کی نفی ہے،
اس لیے یا تو عام روایت کے مطابق کھجوروں کو ترجیح دی جائے گی،
جیسا کے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہے یا پھر یہ معنی کرنا ہوگا کہ اپنے اپنے علاقہ کا غالب اناج مراد ہے،
کھجور اور گندم ضروری نہیں ہے،
جیسا کے امام مالک کا دوسرا قول ہے۔
صاع کی تعیین شریعت نے اس لیے کیا ہے کہ تھنوں میں روکا گیا دودھ مجہول ہے،
پتہ نہیں وہ کتنا تھا،
اس طرح آپس میں اختلاف ہو سکتا تھا۔
تو شریعت نے اختلاف ختم کرنے کے لیے تعیین کر دی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3835
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2148
2148. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”اونٹنی اور بکری کے تھنوں میں دودھ نہ روکو۔ اور جس کسی نے دودھ بستہ جانور خریدا تو اسے دوہنے کے بعد خریدار کو دو باتوں میں سے بہتر اور پسندیدہ کے اختیار کرنے کاحق حاصل ہے چاہے تو اسے اپنے پاس رکھ لے اور چاہے تو اس کو واپس کر دے اور صاع بھر کھجوریں ساتھ دے۔“ ابو صالح، مجاہد، ولید بن رباح اور موسیٰ بن یسار حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے بیان کرتے ہیں، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: ”صاع بھر کھجوروں کا۔“ کچھ راوی حضرت ابن سیرین ؓ سے صاع بھر غلے کا ذکر کرتے ہیں، نیز کہتے ہیں کہ اسے تین دن تک اختیار ہے۔ اور بعض نے ابن سیرین سے ”کھجوروں کا ایک صاع“ ذکر کیا ہے اورتین دن تک اختیار کا ذکر نہیں کیا، البتہ اکثر راویوں نے کھجوروں کا ذکر کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2148]
حدیث حاشیہ:
لونڈی ہو یا گدھی ان کے دودھ کے بدل ایک صاع نہ دیا جائے گا۔
اور حنابلہ نے گدھی کے دودھ کے بدلے صاع دینا لازم نہیں رکھا۔
لیکن لونڈی میں انہوں نے اختلاف کیا ہے اور جمہور اہل علم، صحابہ اور تابعین اور مجتہدین نے باب کی حدیث پر عمل کیا ہے کہ ایسی صورت میں مشتری چاہے تو وہ جانور پھیر دے اور ایک صاع کھجور دودھ کا بدل دے دے۔
خواہ دودھ بہت ہو یا کم اور حنیفہ نے قیاس پر عمل کرکے اس صحیح حدیث کا خلاف کیا ہے اور کہتے کیا ہیں کہ ابوہریرہ ؓ فقیہ نہ تھے۔
اس لیے ان کی روایت قیاس کے خلاف قبول نہیں ہو سکتی۔
اور یہ کھلی دھینگا مشتی ہے۔
ابوہریرہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے حکم نقل فرمایا ہے اور لطف یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ سے جن کو حنفی فقہ اور اجتہاد میں امام جانتے ہیں، ان سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔
اور شاید حنفیہ کو الزام دینے کے لیے امام بخاری ؒ نے اس کے بعد عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت نقل کیا ہے اور خود حنفیہ نے بہت سے مقاموں میں حدیث سے قیاس جلی کو ترک کیا ہے، جیسے وضو بالنبیذ اور قہقہ میں پھر یہاں کیوں ترک نہیں کرتے۔
اور امام ابن قیم نے اس مسئلہ کے ماله و ما علیه پر پوری پوری روشنی ڈالتے ہوئے حنفیہ پر کافی رد کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2148
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2148
2148. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”اونٹنی اور بکری کے تھنوں میں دودھ نہ روکو۔ اور جس کسی نے دودھ بستہ جانور خریدا تو اسے دوہنے کے بعد خریدار کو دو باتوں میں سے بہتر اور پسندیدہ کے اختیار کرنے کاحق حاصل ہے چاہے تو اسے اپنے پاس رکھ لے اور چاہے تو اس کو واپس کر دے اور صاع بھر کھجوریں ساتھ دے۔“ ابو صالح، مجاہد، ولید بن رباح اور موسیٰ بن یسار حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے بیان کرتے ہیں، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: ”صاع بھر کھجوروں کا۔“ کچھ راوی حضرت ابن سیرین ؓ سے صاع بھر غلے کا ذکر کرتے ہیں، نیز کہتے ہیں کہ اسے تین دن تک اختیار ہے۔ اور بعض نے ابن سیرین سے ”کھجوروں کا ایک صاع“ ذکر کیا ہے اورتین دن تک اختیار کا ذکر نہیں کیا، البتہ اکثر راویوں نے کھجوروں کا ذکر کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2148]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ مسئلہ "مصراۃ" کے نام سے مشہور ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں لوگوں نے جب کوئی جانور فروخت کرنا ہوتا تو وہ ایک دو دن تک اس کا دودھ نہیں دوہتے تھے تاکہ دودھ اس کے تھنوں میں جمع ہوکر زیادہ معلوم ہو لیکن جب خریدار اپنے گھر جاکر اس کیفیت کو ملاحظہ کرتا تو پریشان ہوجاتا۔
اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ اگر کوئی گائے،بکری یا اونٹنی اس طرح دودھ روک کر فروخت کی جائے تو خریدار کو اختیار ہے چاہے تو اسی پرراضی رہے چاہے اسے واپس کردے اور ایک صاع کھجور ساتھ دے تاکہ جھگڑا ختم ہوجائے، لیکن تقلید وجمود کی کرشمہ سازی ملاحظہ ہوکہ صحیح احادیث کو رد کرنے کے لیے اصول سازی کی گئی، چنانچی ایک اصول بنایا گیا کہ حدیث اس وقت قبول نہ کی جائے جب اس کا راوی غیر فقیہ ہو اور وہ ہر طرح سے قیاس کے خلاف ہو۔
مذکورہ حدیث صحیح بخاری کو بھی اس خود ساختہ اصول کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور اسے قبول کرنے سے انکار کردیا گیا۔
ان کے ہاں حضرت ابو ہریرہ ؓ جو اس حدیث کے راوی ہیں،غیر فقیہ ہیں اور یہ حدیث قیاس کے خلاف ہے۔
اسی طرح حضرت انس ؓ بھی ان کے ہاں غیر فقیہ ہیں اور ان کی بیان کردہ صحیح بخاری کی ایک روایت کو رد کردیا گیا۔
حدیث میں ہے کہ کچھ لوگ مدینہ آئے لیکن انھیں وہاں کی آب وہوا راس نہ آئی اور ان کے پیٹ پھول گئے۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں اونٹنیوں کا دودھ اور پیشاب پینے کی اجازت دی۔
(صحیح البخاري، حدیث: 238)
ان حضرات کے اس اصول میں علم واجتہاد سے بہرہ ور بہت سے صحابۂ کرام ؓ کے ساتھ بے ادبی کا پہلو تو پایا ہی جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا ثبوت امام ابو حنیفہ ؓ سے نہیں ملتا بلکہ یہ عیسیٰ بن ابان کا مذہب ہے جس پر بہت سے متاخرین نے ان کی متابعت کرلی ہے۔
تفصیل کے لیے اصول الشاشی میں بحث السنة کے حواشی پڑھ لیے جائیں۔
علامہ کرخی نے اس اصول کے خلاف آواز اٹھائی کہ راوی کی فقہ کا روایت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ روایت کی صحت کا دارومدار راوی کے عادل اور ضابط ہونے پر ہے۔
ان حضرات نے قیاس کو حضرت ابو ہریرہ ؓکی بیان کردہ روایت پر ترجیح دے کر خود کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ حدیث کا تمام صحابۂ کرام ؓ سے زیادہ علم رکھنے والے بلکہ راوئ اسلام کے لقب سے مشہور ہیں،پھر انھوں نے تو رسول اللہ ﷺ سے ایک حکم نقل کیاجو اپنی جگہ واجب تعمیل ہے۔
والله المستعان. (2)
امام بخاری ؒ کی بیان کردہ متابعات کو مسلم وغیرہ میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔
(صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 3831 (1524)
، والمعجم الأوسط للطبراني: 249/7، طبع دار الحرمین، قاھرء)
بعض میں کھجور کے بجائے " طعام" کے الفاظ ہیں۔
(صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 3832(1524)
امام بخارى ؒ نے "طعام" کی روایات کو مرجوح قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 450/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2148
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2151
2151. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر کوئی دودھ بستہ بکری خریدلے تو اس کادودھ دوہنے کے بعد وہ اسے پسند ہوتو رکھ لے اور اگر پسند نہ ہوتو اس کے دودھ کے عوض صاع بھر کھجوریں دے دے(اور اسے واپس کردے)۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2151]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے دودھ روکے ہوئے جانور کے سلسلے میں ایک مسئلہ بیان کیا ہے کہ جانور ایک ہویا زیادہ دودھ کے مقابلے میں اسے صرف صاع کھجوریں ساتھ واپس کرنا ہوں گی۔
ہر جانور کی طرف سے الگ الگ صاع نہیں دیا جائے گا کیونکہ ایک صاع کھجور دودھ کا عوضانہ نہیں ہے کیونکہ بعض اوقات ایک جانور کا دودھ ایک صاع کھجور کی مالیت سے زیادہ ہوسکتا ہے،لہٰذا صاع تمر تو جھگڑا ختم کرنے کےلیے ہے۔
اس میں جانوروں کی قلت وکثرت برابر ہے۔
بعض علماء نے ہر جانور کی طرف سے ایک صاع واپس کرنے کا موقف اختیار کیا ہے۔
(2)
امام ابن حزم ؒ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ خریدار کو دودھ اور صاع بھر کھجور دونوں واپس کرنا ہوں گے۔
صرف کھجور دینے سے کام نہیں چلے گا۔
ابن حزم کا یہ موقف محل نظر اور جمہور علماء کے خلاف ہے۔
(فتح الباري: 486/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2151