8. باب: حائضہ سے استفادہ کا بیان اور اللہ عزوجل کے فرمان: «ويسألونك عن المحيض» کی تفسیر۔
Chapter: How To Interact With A Menstruating Woman And The Interpretation Of The Saying Of Allah: They Ask You Concerning Menstruation. Say: "That Is An Adha (A Harmful Thing), Therefore, Keep Away From Women During Menses And Go Not Unto Them Till They Are Purified." [1]
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا سليمان بن حرب، قال: حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن انس، قال: كانت اليهود إذا حاضت المراة منهم لم يؤاكلوهن ولا يشاربوهن ولا يجامعوهن في البيوت، فسالوا النبي صلى الله عليه وسلم، فانزل الله عز وجل ويسالونك عن المحيض قل هو اذى سورة البقرة آية 222 الآية،" فامرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يؤاكلوهن ويشاربوهن ويجامعوهن في البيوت، وان يصنعوا بهن كل شيء ما خلا الجماع"، فقالت اليهود: ما يدع رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا من امرنا إلا خالفنا، فقام اسيد بن حضير، وعباد بن بشر فاخبرا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالا: انجامعهن في المحيض؟ فتمعر رسول الله صلى الله عليه وسلم تمعرا شديدا حتى ظننا انه قد غضب، فقاما فاستقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم هدية لبن فبعث في آثارهما فردهما فسقاهما، فعرف انه لم يغضب عليهما. (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قال: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قال: كَانَتْ الْيَهُودُ إِذَا حَاضَتِ الْمَرْأَةُ مِنْهُمْ لَمْ يُؤَاكِلُوهُنَّ وَلَا يُشَارِبُوهُنَّ وَلَا يُجَامِعُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ، فَسَأَلُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى سورة البقرة آية 222 الْآيَةَ،" فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُؤَاكِلُوهُنَّ وَيُشَارِبُوهُنَّ وَيُجَامِعُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ، وَأَنْ يَصْنَعُوا بِهِنَّ كُلَّ شَيْءٍ مَا خَلَا الْجِمَاعَ"، فَقَالَتْ الْيَهُودُ: مَا يَدَعُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِنَا إِلَّا خَالَفَنَا، فَقَامَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ، وَعَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ فَأَخْبَرَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَا: أَنُجَامِعُهُنَّ فِي الْمَحِيضِ؟ فَتَمَعَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمَعُّرًا شَدِيدًا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ قَدْ غَضِبَ، فَقَامَا فَاسْتَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدِيَّةَ لَبَنٍ فَبَعَثَ فِي آثَارِهِمَا فَرَدَّهُمَا فَسَقَاهُمَا، فَعُرِفَ أَنَّهُ لَمْ يَغْضَبْ عَلَيْهِمَا.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہود کی عورتیں جب حائضہ ہو جاتیں تھی تو وہ ان کے ساتھ نہ کھاتے پیتے اور نہ انہیں اپنے ساتھ گھروں میں رکھتے تھے، تو لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (اس کے متعلق) پوچھا، تو اللہ عزوجل نے آیت کریمہ: «ويسألونك عن المحيض قل هو أذى»”آپ سے لوگ حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں تو آپ کہہ دیجئیے وہ گندگی ہے“(البقرہ: ۲۲۲) نازل فرمائی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ ان کے ساتھ کھائیں پئیں اور انہیں اپنے گھروں میں رکھیں، اور جماع کے علاوہ ان کے ساتھ سب کچھ کریں، اس پر یہود کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی معاملہ ایسا نہیں چھوڑتے جس میں ہماری مخالفت نہ کرتے ہوں، اس پر اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہم دونوں اٹھے، اور جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی، اور کہنے لگے: کیا ہم حیض کے دنوں میں ان سے جماع نہ کریں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سخت متغیر ہو گیا یہاں تک کہ ہم نے سمجھا کہ آپ ناراض ہو گئے ہیں، (اسی دوران) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ کا تحفہ آیا، تو آپ نے ان کے پیچھے (آدمی) بھیجا وہ انہیں بلا کر لایا، آپ نے ان کو دودھ پلایا، تو اس سے جانا گیا کہ آپ ان دونوں سے ناراض نہیں ہیں۔
اليهود كانت إذا حاضت منهم امرأة أخرجوها من البيت ولم يؤاكلوها ولم يشاربوها ولم يجامعوها في البيت فسئل رسول الله عن ذلك فأنزل الله ويسألونك عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض جامعوهن في البيوت واصنعوا كل شيء غير النكاح
اليهود كانوا إذا حاضت المرأة فيهم لم يؤاكلوها ولم يجامعوهن في البيوت فسأل أصحاب النبي النبي فأنزل الله ويسألونك عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض اصنعوا كل شيء إلا النكاح
اليهود كانوا لا يجلسون مع الحائض في بيت ولا يأكلون ولا يشربون قال فذكر ذلك للنبي فأنزل الله ويسألونك عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض اصنعوا كل شيء إلا الجماع
اليهود كانت إذا حاضت منهم امرأة أخرجوها من البيت ولم يؤاكلوها ولم يشاربوها ولم يجامعوها في البيت فسئل رسول الله عن ذلك فأنزل الله ويسألونك عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض قال رسول الله جامعوهن في البيوت واصنعوا كل شيء غير النكاح
اليهود إذا حاضت امرأة منهم لم يؤاكلوها ولم يشاربوها ولم يجامعوها في البيوت فسئل النبي عن ذلك فأنزل الله ويسألونك عن المحيض قل هو أذى أمرهم رسول الله أن يؤاكلوهن ويشاربوهن وأن يكونوا معهن في البيوت وأن يفعلوا كل شيء ما خلا النكاح
اليهود إذا حاضت المرأة منهم لم يؤاكلوهن ولا يشاربوهن ولا يجامعوهن في البيوت فسألوا النبي فأنزل الله ويسألونك عن المحيض قل هو أذى أمرهم رسول الله أن يؤاكلوهن ويشاربوهن ويجامعوهن في البيوت وأن يصنعوا بهن كل شيء ما خلا الجماع
اليهود إذا حاضت المرأة منهم لم يؤاكلوهن ولم يشاربوهن ولم يجامعوهن في البيوت فسألوا نبي الله عن ذلك فأنزل الله ويسألونك عن المحيض قل هو أذى أمرهم رسول الله أن يؤاكلوهن ويشاربوهن ويجامعوهن في البيوت وأن يصنعوا بهن كل شيء ما خلا الجماع
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 122
´حائضہ عورت کے ساتھ بیٹھنا، لیٹنا، کھانا اور پینا` «. . . وعن انس رضي الله عنه ان اليهود كانوا إذا حاضت المراة فيهم لم يؤاكلوها فقال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: اصنعوا كل شيء إلا النكاح . . .» ”. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہودیوں کے ہاں جب کسی عورت کو حیض آتا تو وہ اس عورت کے ساتھ کھانا پینا ترک کر دیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”(اے مسلمانوں)! تم ہمبستری کے علاوہ ہر قسم کا فعل عورت کے ساتھ کر سکتے ہو . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 122]
� لغوی تشریح: «لَمْ يُؤاكِلُوهَا» یعنی اس (ایام ماہواری میں مبتلا) عورت کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے پیتے نہ تھے۔ «إِلَّا النِّكَاحَ» نکاح یہاں جماع کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
فوائد و مسائل: ➊ نبی اخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے حائضہ عورت کے ساتھ بیٹھنا، لیٹنا، کھانا اور پینا سب جائز ہے۔ صرف تعلق زن و شو سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ ➋ یہ چھوت چھات کی بیماری ہنود و یہود کے ہاں ہے، مسلمانوں کے لئے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 122
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 258
´حائضہ عورت کے ساتھ کھانا پینا اور ملنا بیٹھنا جائز ہے۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہود کی عورتوں میں جب کسی کو حیض آتا تو وہ اسے گھر سے نکال دیتے تھے، نہ اس کو ساتھ کھلاتے پلاتے، نہ اس کے ساتھ ایک گھر میں رہتے تھے، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «ويسألونك عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض»”لوگ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، تو کہہ دیجئیے کہ وہ گندگی ہے، لہٰذا حالت حیض میں تم عورتوں سے الگ رہو“، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان کے ساتھ گھروں میں رہو اور سارے کام کرو سوائے جماع کے“، یہ سن کر یہودیوں نے کہا: یہ شخص کوئی بھی ایسی چیز نہیں چھوڑنا چاہتا ہے جس میں وہ ہماری مخالفت نہ کرے، چنانچہ اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہود ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں، پھر ہم کیوں نہ ان سے حالت حیض میں جماع کریں؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا، یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں پر خفا ہو گئے ہیں، وہ دونوں ابھی نکلے ہی تھے کہ اتنے میں آپ کے پاس دودھ کا ہدیہ آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو بلا بھیجا اور (جب وہ آئے تو) انہیں دودھ پلایا، تب جا کر ہم کو یہ پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں سے ناراض نہیں ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 258]
258۔ اردو حاشیہ: ➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے شارح اور مفسر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ فرمان میں «فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ» کا صحیح شرعی معنی واضح فرمایا ہے اور قرآن کو حدیث سے علیحدہ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا۔ ➋ کفار، مبتدعین اور ملحدین کی مخالفت محض مطلوب نہیں تھی بلکہ قرآن و سنت کی حدود میں رہتے ہوئے ان کی مخالفت کرنی چاہیے۔ ➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی ذاتی رنجش کی بنا پر نہ ہوتی تھی اور علمائے حق کو بھی اس طرح ہونا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 258
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2165
´حائضہ عورت سے جماع اور اس سے مباشرت (بدن سے بدن ملا کر لیٹنے) کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہودیوں میں جب کوئی عورت حائضہ ہو جاتی تو اسے گھر سے نکال دیتے نہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے اور نہ ہی اسے گھر میں رکھتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں دریافت کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «يسألونك عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض»”لوگ آپ سے حیض کے متعلق سوال کرتے ہیں تو کہہ دیجئیے کہ وہ گندگی ہے لہٰذا تم حیض کی حالت میں عورتوں سے علیحدہ رہو“(سورۃ البقرہ: ۲۲۲)، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”انہیں گھروں میں رکھو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2165]
فوائد ومسائل: فوائد پیچھے حدیث نمبر258 میں گزر چکے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2165
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 289
´اللہ تعالیٰ کے فرمان «ويسألونك عن المحيض» کی تفسیر۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہود کی عورتیں جب حائضہ ہوتیں تو وہ ان کے ساتھ نہ کھاتے پیتے اور نہ انہیں گھروں میں اپنے ساتھ رکھتے، تو لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا، تو اللہ عزوجل نے آیت کریمہ: «ويسألونك عن المحيض قل هو أذى»(البقرہ: ۲۲۲)”لوگ آپ سے حیض کے متعلق دریافت کرتے ہیں، آپ فرما دیجئیے: وہ گندگی ہے“ نازل فرمائی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ ان کے ساتھ کھائیں، پئیں اور انہیں اپنے ساتھ گھروں میں رکھیں، اور جماع کے علاوہ ان کے ساتھ سب کچھ کریں۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 289]
289۔ اردو حاشیہ: ➊ حائضہ عورت کے ساتھ یہودیوں کا سلوک انتہائی توہین آمیز تھا جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ وہ حیض کی حالت میں عورت کو اچھوت بنا دیتے تھے، حتیٰ کہ اس کی رہائش بھی الگ ہو جاتی تھی، جب کہ عیسائی حیض اور غیر حیض میں کوئی فرق نہ کرتے تھے، وہ حیض کی حالت میں جماع تک کر لیتے تھے۔ اسلام نے، جو دین اعتدال ہے، میانہ روی اختیار کی کہ نہ انہیں اچھوت بنایا، نہ جماع کی ا جازت دی اور یہی حق ہے۔ ➋ قرآن مجید نے حائضہ سے جماع کے منع کرنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ حیض کا خون نجس ہے اور نجاست میں لتھڑنا فطرت کے خلاف ہے، لہٰذا حیض ختم ہونے، بلکہ ان کے غسل کرنے تک جماع حرام ہے۔ جب عورت بالکل پاک ہو جائے تو پھر جماع حلال ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ عورت کی ”دبر“ استعمال کرنا بھی حرام ہے کیونکہ وہ تو ہر وقت نجاست سے آلودہ رہتی ہے۔ علاوہ ازیں ایک دوسری حدیث میں صراحتاً بھی اس کی حرمت آئی ہے۔ دیکھیے: [جامع الترمذي: الطھارة، حدیث: 135] ➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کا سبب یہ تھا کہ کسی قوم کی مخالفت کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ناجائز کام کرنے لگ جائیں۔ یہ تو ضد اور تعصب کا مظاہرہ ہو گا۔ یہود کی مخالفت بھی صرف ان کاموں میں ہے جو انہوں نے اپنی طرف سے دین میں شامل کیے ہیں اور جن میں وہ راہ راست سے ہٹے ہوئے ہیں۔ ہاں! بعض احکام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کا بھی حکم دیا ہے، جس سے مقصود ان سے امتیاز تھا۔ ➍ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی صرف ایک غلط رویے کے خلاف تھی نہ کہ ان صحابہ پر، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس بلا کر دودھ پلایا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 289
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث644
´حائضہ عورت کے ساتھ کھانے پینے اور اس کے جھوٹے کے حکم کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہود حائضہ عورتوں کے ساتھ نہ تو گھر میں بیٹھتے، نہ ان کے ساتھ کھاتے پیتے تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «ويسألونك عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض»”لوگ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے: وہ ایک گندگی ہے لہٰذا تم عورتوں سے حیض کی حالت میں الگ رہو“(سورة البقرہ: ۲۲۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جماع کے سوا عورتوں سے حیض کی حالت میں سب کچھ کرو۔“[سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 644]
اردو حاشہ: (1) سابقہ شریعتوں میں احکام شریعت محمدی کی نسبت سخت تھے۔ بعض مسائل میں خود یہود نے سختی پیدا کرلی تھی انہی میں طہارت ونجاست کے مسائل بھی تھے۔ چنانچہ یہودی ان ایام میں عورت کو الگ کمرے یا خیمے میں رہنے کا حکم دیتے تھے کیونکہ ان کی رائےمیں وہ جس بستر پر بیٹھ جائے جو کپڑا پہن لے یا جس چیز کو ہاتھ لگادے وہ ناپاک ہوجاتی ہے حتی کہ اگر کوئی شخص اس کے بستر کو چھولے تو وہ بھی ناپاک ہوجاتا ہے اور اسے غسل کرنا پڑتا ہے۔ (دیکھیے: عہد نامہ قدیم، کتاب احبار، باب: 15 فقرہ: 19 تا 23)
(2) اسلام میں طہارت اور صفائی کی بہت اہمیت ہے لیکن یہود جیسے سخت احکام نہیں اس لیے حیض ونفاس کے ایام میں مباشرت تو جائز نہیں لیکن عورت کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا پیار کرنا سب کچھ جائز ہے البتہ مباشرت حرام ہے جیسے کہ گزشتہ ابواب میں بیان ہوا۔
(3) جس شخص کو خطرہ محسوس ہو کہ پیار کرنے کی صورت میں وہ اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکے گا اور ممنوع کام کا ارتکاب کر بیٹھے گا تو اسے اس اجازت سے فائدہ اٹھانے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے اس کے لیے بہتر ہے کہ ان ایام میں بیوی سے دور ہی رہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 644
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2977
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔` انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ یہودیوں کے یہاں جب ان کی کوئی عورت حائضہ ہوتی تھی تو وہ اسے اپنے ساتھ نہ کھلاتے تھے نہ پلاتے تھے۔ اور نہ ہی اسے اپنے ساتھ گھر میں رہنے دیتے تھے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت: «ويسألونك عن المحيض قل هو أذى»۱؎ نازل فرمائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ انہیں اپنے ساتھ کھلائیں پلائیں اور ان کے ساتھ گھروں میں رہیں۔ اور ان کے ساتھ جماع کے سوا (بوس و کنار وغیرہ) سب کچھ کریں، یہودیوں نے کہا: یہ شخص ہمارا کوئی کام نہیں چھوڑتا جس میں ہماری مخالفت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2977]
اردو حاشہ: وضاحت:
1؎: لوگ پوچھے ہیں تم سے کہ حیض کیا ہے؟ کہہ دوکہ وہ ایک تکلیف ہے (البقرۃ: 222)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2977
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 694
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ یہودی جب ان کی کوئی عورت حائضہ ہوتی، تو وہ نہ اس کے ساتھ کھانا کھاتے اور نہ ان کے ساتھ ان کے گھروں میں اکٹھے رہتے، تو نبی اکرم ﷺ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے آپﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت اتاری ”یہ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ فرما دیجیے حیض پلیدی ہے، تو حیض کے دنوں میں ان سے الگ رہو۔“ آخر تک (سورة بقرة:۲۲۲) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جماع کے سوا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:694]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ معتکف مسجد سے ضرورت کے تحت، ہاتھ، پیر یا سر نکال سکتا ہے۔ 2۔ اگر مسجد میں قضائے حاجت کا انتظام نہ ہو اور باہر دور جانا پڑتا ہو گھر قریب ہو تو قضائے حاجت کے لیے گھر جا سکتا ہے۔ 3۔ راستہ سے گزرتے گزرتے بیمار کی بیمار پرسی کر سکتا ہے۔ 4۔ عورت کا حیض کی حالت میں سارا جسم پلید نہیں ہو جاتا، اس لیے وہ گھر کا کام کاج کر سکتی ہے خاوند کا سر دھو کر اس میں کنگھی کر سکتی ہے مسجد سے باہرکھڑے ہو کر مسجد میں کھڑے ہوئے محرم کو کوئی چیز پکڑا سکتی ہے۔ 5۔ حائضہ کی گود میں سر رکھ کر قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر واذکار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ 6۔ بیوی سے محبت وپیار کے اظہار کے لیے اس کے کھانے پینے کی جگہ سے کھایا پیا جا سکتا ہے اور اس کا حیض کی صورت میں منہ پلید نہیں ہوتا۔ 7۔ خاص تعلقات کے سوا، میاں بیوی کے باقی معاملات حیض سے متاثر نہیں ہوتے۔ 8۔ اہل کتاب کی مخالفت شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہو گی، مخالفت کے جوش میں شرعی حدود سے تجاوز نہیں کیا جائے گا۔ ﴿فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ﴾ کا مقصد تعلقات زن وشوہر سے اجتناب کرنا ہے، ان سے بالکل الگ تھلگ ہو جانا مراد نہیں ہے کہ انسان بیوی کے ساتھ اٹھ بیٹھ نہ سکے اور نہ اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھا سکے اور کمرے الگ الگ ہو جائیں۔