الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5112
5112. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شغار سے منع فرمایا: اور شغار یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی کا نکاح (کسی کے ساتھ) اس شرط کے ساتھ کرے کہ وہ دوسرا شخص بھی اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کرے گا اور ان دونوں کا کوئی حق مہر مقرر نہ ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5112]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”نکاح شغار، اسلام میں نہیں ہے۔
“ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3465 (1415)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ شغار کی تعریف حضرت نافع نے کی ہے۔
(صحیح البخاري، الحیل، حدیث: 6960)
اس میں حق مہر کی قید اتفاقی ہے، اصل مشروط تبادلۂ نکاح ہی شغار ہے، خواہ اس میں حق مہر کی تعیین ہو یا نہ ہو جیسا کہ حضرت عباس بن عبداللہ بن عباس نے عبدالرحمٰن بن حکم سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا اور عبدالرحمٰن نے اس کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا، ان دونوں نے حق مہر بھی مقرر کیا تھا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مروان بن حکم کی طرف سے ایک مکتوب کے ذریعے سے ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دی اور لکھا کہ یہی وہ شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔
(سنن أبي داود، النکاح، حدیث: 2075) (2)
اگرچہ فقہائے کوفہ نے مہر مثل کی ادائیگی سے اسے جائز قرار دیا ہے لیکن یہ موقف واضح احادیث کے خلاف ہے۔
ہاں، اگر اتفاقی طور پر تبادلۂ نکاح ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(3)
اس کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہےکہ اگر ایک لڑکی کو اس کی غلطی کی وجہ سے طلاق ملتی ہے تو دوسری لڑکی کا گھر بلا وجہ اجڑ جاتا ہے، اس لیے شریعت نے مشروط تبادلۂ نکاح سے منع فرما دیا۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5112
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6960
6960. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شغار سے منع فرمایا ہے، (راوی حدیث عبید اللہ نے کہا) میں نے حضرت نافع سے شغار کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا: کوئی آدمی دوسرے کی بیٹی سے نکاح کرتا ہے اور وہ اس کے نکاح میں اپنی بیٹی دیتا ہے، اس (تبادلے) کے علاوہ اور کوئی حق مہر نہیں ہوتا۔ اور مہر کے بغیر کسی آدمی کی بہن سے نکاح کرے اور وہ اس کو اپنی بہن کا نکاح حق مہر کے بغیر کر دے۔ بعض لوگوں نے کہا: اگر کسی نے حیلہ کر کے نکاح شغار کر لیا تو عقد نکاح درست البتہ شرط باطل ہے۔ پھر نکاح متعہ کے متعلق کہا کہ یہ نکاح بھی فاسد ہے اور شرط بھی باطل ہے بعض حضرات کا خیال ہے کہ نکاح متعہ اور نکاح شغار دونوں جائز ہیں البتہ شرط باطل ہوگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6960]
حدیث حاشیہ: 1۔
کسی کے ساتھ اپنی بہن یا بیٹی کا نکاح اس شرط پر کرنا کہ وہ اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح اس سے کر دے، نکاح شغار کہلاتا ہے، چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث میں شغار کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
ایک آدمی دوسرے سے کہے کہ تو اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دے میں اپنی بیٹی کی شادی تجھ سے کر دیتا ہوں یا کہے کہ تو اپنی بہن کی شادی مجھ سے کر دے، میں اپنی بہن کی شادی تجھ سے کر دیتا ہوں۔
(مسند أحمد: 439/2) شریعت میں ایسا نکاح کرنا حرام ہے بلکہ اسلام اس قسم کے نکاح کو تسلیم نہیں کرتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”نکاح شغار اسلام میں نہیں ہے۔
“ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3465(1415)
لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نکاح شغار اپنے اصل کے اعتبار سے مشروع ہے لیکن ایک خاص وصف کی بنا پر فاسد ہے کیونکہ اس میں حق مہر نہیں ہوتا، لہذا مہرمثل واجب قرار دے کر اسے بحال رکھا جا سکتا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے لوگوں پر تین اعتراض کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
اس طرح کے نکاح کو حیلے کے ذریعے سے جائز قرار دینا صحیح احادیث کے خلاف ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے نکاح سے منع فرمایا ہے اور آپ کی نہی منع کردہ چیز کے فساد کا تقاضا کرتی ہے بلکہ اسلام نے تو اس کے وجود سے انکار کیا ہے۔
۔
ان حضرات کے اقوال میں تناقض ہے۔
اسلام میں جس طرح شغار منع ہے، اسی طرح متعہ بھی ممنوع ہے، لہذا ان دونوں کا حکم بھی ایک ہونا چاہیے لیکن یہ لوگ حیلے سے شغار کو جائز قراردیتے ہیں لیکن متعے کو حیلے سے جائز قرار نہیں دیتے، یہ واضح تضاد ہے۔
۔
خود ان حضرات کے اقوال میں تضاد پایا جاتا ہے۔
اکثر کے نزدیک نکاح شغار جائز اور متعہ ناجائز ہے لیکن ان میں سے بعض کے نزدیک شغار اور متعہ دونوں ہی جائز ہیں، البتہ شرط باطل ہے۔
2۔
ہمارے رجحان کے مطابق متعے اور شغار کی ممانعت یکساں طور پر احادیث سے ثابت ہے بلکہ نکاح متعہ تو بعض حالات میں حلال تھا مگر شغار کبھی حلال نہیں ہوا۔
اب متعہ بھی قیامت تک کے لیے حرام ہے۔
3۔
نکاح شغار کی ممانعت مہر کے نہ ہونے کی بنا پر نہیں کہ مہر مثل سے اسے برقرار رکھا جاسکے گا بلکہ باہمی شرط لگانے اور تبادلے کی وجہ سے حرام ہے۔
اس میں معاشرتی خرابی یہ ہے کہ اگر ایک آدمی دوسرے کی بیٹی چھوڑدیتا ہے تو دوسرا بھی اس کی بیٹی کوچھوڑ دے گا۔
اس میں اگرحق مہر رکھ بھی دیا جائے تب بھی حرام ہے جیسا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبداللہ بن عباس نے عبدالرحمان بن حکم سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا اور عبدالرحمان نے اپنی بیٹی کا نکاح عباس سے کردیا، ان دونوں نے حق مہر بھی مقرر کیا تھا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اس کی خبر ہوئی تو انھوں نے مروان بن الحکم کی طرف ایک مکتوب کے ذریعے سے ان دونوں کے درمیان جدائی کاحکم بھیج دیا۔
اس مکتوب میں یہ بھی تھا کہ یہی وہ نکاح شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔
(سنن أبي داود، النکاح، حدیث 2075)
اس نکاح میں حق مہر بھی ادا کردیا گیا تھا اس کے باوجود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے ختم کردیا،لہذا اس قسم کے نکاح کو کسی حیلے کے ذریعے دے جائز قراردینا شریعت کے ضابطے کو اپنے ہاتھ میں لینے کے مترادف ہے۔
4۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بروقت اس قسم کے حیلوں سے آگاہ کرکے امت کو خبردار کیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ ان میں گرفتار ہوجائے۔
واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات پر کوئی الزام نہیں لگایا بلکہ امر واقعی یہ ہے کہ ان حضرات کے نزدیک نکاح شغار اور نکاھ موقت جائز ہے،چنانچہ شرح وقایہ میں ہے:
"بیع توفاسد شرطوں سے باطل ہوجاتی ہے لیکن نکاح میں فاسد شرائط مؤثر نہیں ہوتیں،لہذا شغار اور نکاح موقت دونوں جائز ہیں۔
"(شرح وقایة، کتاب النکاح)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6960