محمد بن عبدالرحمٰن نے محمد بن عمرو بن حسن سے روایت کی، اور انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ سفر میں اس کے اوپر سایہ کیا گیا ہے، تو آپ نے فرمایا: ”سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے“۔
وضاحت: ۱؎: اوپر والی روایت میں مذکور «عن رجل» میں رجل سے مراد یہی محمد بن عمرو بن حسن ہیں۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2407
´سفر میں روزہ نہ رکھنا بہتر ہے اس کے قائلین کی دلیل۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جس پر سایہ کیا جا رہا تھا اور اس پر بھیڑ لگی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں۔“[سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2407]
فوائد ومسائل: جو شخص سفر میں روزے کی مشقت کا متحمل نہ ہو اور اسے روزے سے اذیت ہوتی ہو، تو اس کے لیے افطار کرنا واجح اور افضل ہے۔ ورنہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے روزہ رکھنا بھی ثابت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2407
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1946
1946. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے دوران سفر ایک ہجوم دیکھا۔ اس میں ایک آدمی نظر آیا جس پر سایہ کیا گیاتھا۔ آپ نے فرمایا: ”یہ کیا ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: یہ شخص روزے دار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”(ایسے حالات میں) دوران سفر میں روزہ ر کھنا کوئی نیکی نہیں۔ “[صحيح بخاري، حديث نمبر:1946]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی جو سفر میں افطار ضروری سمجھتے ہیں۔ مخالفین یہ کہتے ہیں کہ مراد اس سے وہی ہے جب سفر میں روزے سے تکلیف ہوتی ہو اس صورت میں تو بالاتفاق افطار افضل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1946
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1946
1946. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے دوران سفر ایک ہجوم دیکھا۔ اس میں ایک آدمی نظر آیا جس پر سایہ کیا گیاتھا۔ آپ نے فرمایا: ”یہ کیا ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: یہ شخص روزے دار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”(ایسے حالات میں) دوران سفر میں روزہ ر کھنا کوئی نیکی نہیں۔ “[صحيح بخاري، حديث نمبر:1946]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے اہل ظاہر نے دلیل پکڑی ہے کہ دوران سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ اگر کسی نے روزہ رکھ لیا تو وہ روزہ نہ ہو گا، حالانکہ یہ حدیث ایک خاص شخص سے متعلق ہے جس پر سایہ کیا گیا تھا اور وہ ہلاکت کے قریب پہنچ چکا تھا، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس روزے میں روزہ دار اس حالت کو پہنچ جائے کہ اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو، اس وقت روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات میں روزہ چھوڑ دینے کی رخصت دی ہے، ایسے انسان کے لیے روزہ چھوڑ دینا افضل ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سفر میں رمضان کا روزہ رکھنے والا حالت اقامت میں روزہ چھوڑنے والے کی طرح ہے۔ “(سنن ابن ماجة، الصیام، حدیث: 1666) یہ روایت منکر اور ضعیف ہے۔ (سلسلة الأحادیث الضعیفة،حدیث: 498)(2) صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں فتح مکہ کے لیے مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے۔ آپ روزے کی حالت میں تھے۔ جب مقام کراع الغمیم پہنچے تو آپ سے کہا گیا کہ لوگوں پر روزہ بہت مشکل ہو رہا ہے اور وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اسے لوگوں کے سامنے کر کے نوش کر لیا۔ اس کے بعد آپ کو بتایا گیا کہ کچھ لوگوں نے روزہ افطار نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا: ”یہی نافرمان ہیں، یہی نافرمان ہیں۔ “(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2610(1114) اس حدیث کا بھی یہی مطلب ہے کہ جب روزہ باعث مشقت ہو تو دوران سفر میں اسے چھوڑ دینا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1946