(مرفوع) اخبرنا سليمان بن سلم البلخي، قال: حدثنا النضر، قال: انبانا يونس، عن ابي إسحاق، عن الاسود، عن ام سلمة، قالت:" ما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى كان اكثر صلاته جالسا إلا المكتوبة" , خالفه شعبة وسفيان، وقالا: عن ابي إسحاق، عن ابي سلمة، عن ام سلمة. (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سَلْمٍ الْبَلْخِيُّ، قال: حَدَّثَنَا النَّضْرُ، قال: أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:" مَا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ أَكْثَرُ صَلَاتِهِ جَالِسًا إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ" , خَالَفَهُ شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ، وَقَالَا: عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا یہاں تک کہ آپ کی بیشتر نمازیں بیٹھ کر ہونے لگیں سوائے فرض نماز کے۔ شعبہ اور سفیان نے یونس بن شریک کی مخالفت کی ہے، ان دونوں نے اسے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نے ام سلمہ سے روایت کی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 18145)، مسند احمد 6/297، وانظر مایأتی (صحیح) (آگے آنے والی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ درجہ کی ہے)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1654
1654۔ اردو حاشیہ: عمر بن زائدہ اور یونس نے ابواسحاق کا استاد اسود بتایا تھا جبکہ شعبہ اور سفیان نے ابواسحاق کا استاد ابوسلمہ بتایا ہے، البتہ یہ روایت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہی کی بتائی ہوئی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1654
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1225
´نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے کا بیان۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کو قبض کیا، آپ وفات سے پہلے اکثر بیٹھ کر نمازیں پڑھا کرتے تھے، اور آپ کو وہ نیک عمل انتہائی محبوب اور پسندیدہ تھا جس پر بندہ ہمیشگی اختیار کرے، خواہ وہ تھوڑا ہی ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1225]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اگر نمازی نفل نماز میں طویل قراءت کرنا چاہتا ہو لیکن طویل قیام اس کے لئے مشقت کا باعث ہو تو کچھ قرءات کھڑے ہوکر اور کچھ قراءت بیٹھ کر کرسکتا ہے۔ جیسے کے اگلی حدیث میں آرہا ہے۔
(2) نیکی کے کام پر پابندی سے عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاہم اس طرح کا عمل فرض نہیں ہوجاتا۔ اس لئے اگر کسی موقع پر آدمی آرام کی ضرورت محسوس کرے۔ تو اس میں ناغہ کرسکتا ہے۔ اس کی مقدار کم کرسکتا ہے۔
(3) بظاہر چھوٹی نیکی کو معمولی سمجھ کر نظرانداز کردینا مناسب نہیں کیونکہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں مل کر بڑے درجات کا باعث بن سکتی ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1225
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4237
´نیک کام کو ہمیشہ کرنے کی فضیلت کا بیان۔` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قسم ہے اس (اللہ) کی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (دنیا سے) لے گیا! آپ جب فوت ہوئے تو آپ زیادہ نماز (تہجد) بیٹھ کر ادا فرماتے تھے۔ اور آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ عمل وہ نیک عمل تھا جس پر بندہ ہمیشگی کرے اگرچہ تھوڑا ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4237]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) تھوڑی نیکی اگر پابندی سے کی جائے تو وہ طبعیت پر بوجھ نہیں بنتی اور نتیجے کے لحاظ سے اس زیادہ نیکی سے بڑھ جاتی ہے۔ جو چند دن زور شور سے کی جائے۔ پھر چھوڑ دی جائے۔
(2) ہمیشگی کا مطلب یہ نہیں کہ انسان بیمارہو مجبور ہو یا کوئی اور عذر ہو۔ پھر بھی ضرور ادا کرے۔ اس طرح یہ نفلی عمل فرض کے مشابہ ہوجائے گا اور نفل کو فرض کا مقام دینا درست نہیں۔
(3) نیکی کا جو کام ہمیشہ کرنے کی عادت ہو پھر کسی وجہ سے وہ چھوٹ جائے بعد میں جب وہ وجہ ختم ہوجائے۔ تو دوبارہ شروع کردینا چاہیے۔
(4) تہجد میں طویل قیام افضل ہے اگرچہ تھک جانے کی وجہ سے قیام کا کچھ حصہ یا اکثر حصہ بیٹھ کر ادا کیا جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4237