عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم تین طرح کا ہے، اور جو اس کے علاوہ ہے وہ زائد قسم کا ہے: محکم آیات ۱؎، صحیح ثابت سنت ۲؎، اور منصفانہ وراثت ۳؎“۔
وضاحت: ۱؎: یعنی غیر منسوخ قرآن کا علم۔ ۲؎: یعنی صحیح احادیث کا علم۔ ۳؎: فرائض کا علم جس سے ترکے کی تقسیم انصاف کے ساتھ ہو سکے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الفرائض 1 (2885)، (تحفة الأشراف: 8876) (ضعیف)» (سند میں تین راوی: رشدین بن سعد، عبدالرحمن بن زیاد بن أنعم الإفریقی اور عبد الرحمن بن رافع ضعیف ہیں)
It was narrated that 'Abdullah bin 'Amr said:
"The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Knowledge is based on three things, and anything beyond that is superfluous: a clear Verse, an established Sunnah, or the rulings by which the inheritance is divided fairly.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (2885) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 376
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث54
اردو حاشہ: (1) سند کے لحاظ سے یہ روایت ضعیف ہے، تاہم قرآن وحدیث کے علم کی اہمیت و ضرورت دوسرے بہت سے دلائل سے ثابت ہے۔ اسی طرح علم میراث کی اہمیت بھی محتاج وضاحت نہیں۔
(2) محکم آیت سے مراد یہ ہے کہ وہ آیت منسوخ ہو، نہ متشابہ۔ قرآن و حدیث میں ناسخ اور منسوخ کا علم بھی بہت اہمیت کا حامل ہے، اس کے بغیر کسی بھی مسئلے میں فیصلہ کرتے ہوئے غلطی ہو سکتی ہے۔
(3) ثابت شدہ سنت سے مراد یہ ہے کہ وہ سنت بسند صحیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو اور منسوخ بھی نہ ہو۔
(4) مالی حقوق کے عدل پر مبنی ہونے سے مراد یہ ہے کہ مالی معاملات میں شرعی استحقاق کے بغیر کچھ لینا دینا ظلم ہے اور اس سے دنیا میں فساد پھیلتا ہے، اس لیے مسلمان کو ان امور کی لازمی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے اور ان میں سے ایک علم میراث ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 54
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 239
´قرآنی علم کی تین اقسام` «. . . وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ: آيَةٌ مُحْكَمَةٌ أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ وَمَا كَانَ سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فضل ". رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه . . .» ”. . . سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم کی تین قسمیں ہیں۔ ایک آیات محکمہ، یعنی کھلی ہوئی غیر منسوخ اور سنت قائمہ اور فریضہ عادلہ اور اس کے علاوہ زائد ہیں۔“ اس حدیث کو ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 239]
تحقیق الحدیث: اس کی سند ضعیف ہے۔ اس روایت میں عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم الافریقی اور اس کا استاد عبدالرحمٰن بن رافع التنوخی دونوں ضعیف ہیں۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب 3862، 3856] اور کتب اسماء الرجال
تنبیہ: محکم آیت سے مراد وہ آیت ہے جس کا مطلب صاف اور واضح ہو، تاویل کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ سنت قائمہ سے مراد قائم و دائم اور ثابت شدہ سنت ہے۔ ◄ فریضہ عادلہ سے مراد عدل و انصاف والا فرض ہے، جس میں لوگوں کے لئے خیر ہی خیر ہے۔ ◄ یہ مختصر لغوی تشریح بطور فائدہ و تفہیم کر دی ہے، ورنہ ضعیف روایت کے فقہ الحدیث کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2885
´علم فرائض سیکھنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اصل) علم تین ہیں اور ان کے علاوہ علوم کی حیثیت فضل (زائد) کی ہے: آیت محکمہ ۲؎، یا سنت قائمہ ۳؎، یا فریضہ عادلہ ۴؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2885]
فوائد ومسائل: 1) یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل:1664) (2) قرآن مجید کی آیات دو طرح کی ہیں: (1) محکم، (2) متشا بہات۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: {هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ }[آل عمران: 7] " اللہ وہ ذات ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس کی کچھ آیات محکم (واضح) ہیں جو کتاب کا اصل ہیں اور کچھ متشابہ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ (محکم) سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوا مر، نواہی، احکام و مسائل اور قصص و حکایات کا بیان ہے، ان کا معنی ومفہوم واضح اور اٹل ہے۔ اور دوسری قسم (متشا بہ) سے مراد وہ آیات ہیں جن کا تعلق ما بعد الطبیعیات سے ہوع، یعنی اللہ کی ہستی قضا و قدر، جنت ودوزخ اور ملائکہ وغیرہ کہ انسانی عقل ان کو سمجھے سے قاصر ہو اور ان میں ایسی تاویل کی گنجائش یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو۔ اس لیے اہل بدعت جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے یا اہل باطل، وہ آیات متشا بہات کے پیچھے پڑے رہتےہیں اور ان کے ذریعے سے "فتنے" برپا کرتےہیں۔ (ملخص از تفسیر احسن البیان) (3) احادیث و سنن کا ثبوت سند کی صحت و قوت پر ہے۔ ایسی روایات جن کی سند نا قابل اعتماد ہو کسی طرح رسو ل اللہ ﷺ کا فرمان باور نہیں کی جاسکتیں۔
(4) مالی معاملات میں شرعی استحقاق کے بغیر کچھ لینا دینا ظلم ہے اور اس سے دنیا میں فساد پھیلتا ہے، اس لیے مسلمان کو ان امور کی لا زمی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور ان میں سے ایک علم میراث ہے۔ ۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2885