وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" العلم ثلاثة: آية محكمة او سنة قائمة او فريضة عادلة وما كان سوى ذلك فهو فضل". رواه ابو داود وابن ماجه وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ: آيَةٌ مُحْكَمَةٌ أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ وَمَا كَانَ سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فضل". رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”علم تین ہیں: آیت محکمہ یا سنت ثابتہ یا فریضہ عادلہ (ہر وہ فرض جس کی فرضیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے) اور جو اس کے سوا ہو وہ افضل ہے۔ “ اس حدیث کو ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (2885) و ابن ماجه (54) ٭ عبد الرحمٰن بن زياد بن أنعم الإفريقي و شيخه عبد الرحمٰن بن رافع: ضعيفان، والحديث ضعفه الذھبي في تلخيص المستدرک (4/ 332)»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 239
تحقیق الحدیث: اس کی سند ضعیف ہے۔ اس روایت میں عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم الافریقی اور اس کا استاد عبدالرحمٰن بن رافع التنوخی دونوں ضعیف ہیں۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب 3862، 3856] اور کتب اسماء الرجال
تنبیہ: محکم آیت سے مراد وہ آیت ہے جس کا مطلب صاف اور واضح ہو، تاویل کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ سنت قائمہ سے مراد قائم و دائم اور ثابت شدہ سنت ہے۔ ◄ فریضہ عادلہ سے مراد عدل و انصاف والا فرض ہے، جس میں لوگوں کے لئے خیر ہی خیر ہے۔ ◄ یہ مختصر لغوی تشریح بطور فائدہ و تفہیم کر دی ہے، ورنہ ضعیف روایت کے فقہ الحدیث کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2885
´علم فرائض سیکھنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اصل) علم تین ہیں اور ان کے علاوہ علوم کی حیثیت فضل (زائد) کی ہے: آیت محکمہ ۲؎، یا سنت قائمہ ۳؎، یا فریضہ عادلہ ۴؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2885]
فوائد ومسائل: 1) یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل:1664) (2) قرآن مجید کی آیات دو طرح کی ہیں: (1) محکم، (2) متشا بہات۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: {هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ }[آل عمران: 7] " اللہ وہ ذات ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس کی کچھ آیات محکم (واضح) ہیں جو کتاب کا اصل ہیں اور کچھ متشابہ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ (محکم) سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوا مر، نواہی، احکام و مسائل اور قصص و حکایات کا بیان ہے، ان کا معنی ومفہوم واضح اور اٹل ہے۔ اور دوسری قسم (متشا بہ) سے مراد وہ آیات ہیں جن کا تعلق ما بعد الطبیعیات سے ہوع، یعنی اللہ کی ہستی قضا و قدر، جنت ودوزخ اور ملائکہ وغیرہ کہ انسانی عقل ان کو سمجھے سے قاصر ہو اور ان میں ایسی تاویل کی گنجائش یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو۔ اس لیے اہل بدعت جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے یا اہل باطل، وہ آیات متشا بہات کے پیچھے پڑے رہتےہیں اور ان کے ذریعے سے "فتنے" برپا کرتےہیں۔ (ملخص از تفسیر احسن البیان) (3) احادیث و سنن کا ثبوت سند کی صحت و قوت پر ہے۔ ایسی روایات جن کی سند نا قابل اعتماد ہو کسی طرح رسو ل اللہ ﷺ کا فرمان باور نہیں کی جاسکتیں۔
(4) مالی معاملات میں شرعی استحقاق کے بغیر کچھ لینا دینا ظلم ہے اور اس سے دنیا میں فساد پھیلتا ہے، اس لیے مسلمان کو ان امور کی لا زمی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور ان میں سے ایک علم میراث ہے۔ ۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2885
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث54
´رائے اور قیاس سے اجتناب و پرہیز۔` عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم تین طرح کا ہے، اور جو اس کے علاوہ ہے وہ زائد قسم کا ہے: محکم آیات ۱؎، صحیح ثابت سنت ۲؎، اور منصفانہ وراثت ۳؎۔“[سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 54]
اردو حاشہ: (1) سند کے لحاظ سے یہ روایت ضعیف ہے، تاہم قرآن وحدیث کے علم کی اہمیت و ضرورت دوسرے بہت سے دلائل سے ثابت ہے۔ اسی طرح علم میراث کی اہمیت بھی محتاج وضاحت نہیں۔
(2) محکم آیت سے مراد یہ ہے کہ وہ آیت منسوخ ہو، نہ متشابہ۔ قرآن و حدیث میں ناسخ اور منسوخ کا علم بھی بہت اہمیت کا حامل ہے، اس کے بغیر کسی بھی مسئلے میں فیصلہ کرتے ہوئے غلطی ہو سکتی ہے۔
(3) ثابت شدہ سنت سے مراد یہ ہے کہ وہ سنت بسند صحیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو اور منسوخ بھی نہ ہو۔
(4) مالی حقوق کے عدل پر مبنی ہونے سے مراد یہ ہے کہ مالی معاملات میں شرعی استحقاق کے بغیر کچھ لینا دینا ظلم ہے اور اس سے دنیا میں فساد پھیلتا ہے، اس لیے مسلمان کو ان امور کی لازمی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے اور ان میں سے ایک علم میراث ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 54