(مرفوع) حدثنا ابو كريب , واحمد بن سنان , قالا: حدثنا ابو معاوية , عن الاعمش , عن ابي صالح , عن ابي سعيد , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يجيء النبي يوم القيامة ومعه الرجل , يجيء النبي ومعه الرجلان , ويجيء النبي ومعه الثلاثة , واكثر من ذلك واقل , فيقال له: هل بلغت قومك؟ فيقول: نعم فيدعى قومه , فيقال: هل بلغكم؟ فيقولون: لا , فيقال: من يشهد لك؟ فيقول: محمد وامته , فتدعى امة محمد , فيقال: هل بلغ هذا؟ فيقولون: نعم , فيقول: وما علمكم بذلك؟ فيقولون: اخبرنا نبينا بذلك , ان الرسل قد بلغوا فصدقناه , قال: فذلكم قوله تعالى: وكذلك جعلناكم امة وسطا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا سورة البقرة آية 143. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ , وَأَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَجِيءُ النَّبِيُّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَعَهُ الرجل , يَجِيءُ النَّبِيُّ وَمَعَهُ الرَّجُلَانِ , وَيَجِيءُ النَّبِيُّ وَمَعَهُ الثَّلَاثَةُ , وَأَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ وَأَقَلُّ , فَيُقَالُ لَهُ: هَلْ بَلَّغْتَ قَوْمَكَ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ فَيُدْعَى قَوْمُهُ , فَيُقَالُ: هَلْ بَلَّغَكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: لَا , فَيُقَالُ: مَنْ يَشْهَدُ لَكَ؟ فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُهُ , فَتُدْعَى أُمَّةُ مُحَمَّدٍ , فَيُقَالُ: هَلْ بَلَّغَ هَذَا؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ , فَيَقُولُ: وَمَا عِلْمُكُمْ بِذَلِكَ؟ فَيَقُولُونَ: أَخْبَرَنَا نَبِيُّنَا بِذَلِكَ , أَنَّ الرُّسُلَ قَدْ بَلَّغُوا فَصَدَّقْنَاهُ , قَالَ: فَذَلِكُمْ قَوْلُهُ تَعَالَى: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا سورة البقرة آية 143.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قیامت کے دن) ایک نبی آئے گا اور اس کے ساتھ دو ہی آدمی ہوں گے، اور ایک نبی آئے گا اس کے ساتھ تین آدمی ہوں گے، اور کسی نبی کے ساتھ زیادہ لوگ ہوں گے، کسی کے ساتھ کم، اس نبی سے پوچھا جائے گا: کیا تم نے اپنی قوم تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا تھا؟ وہ کہے گا: ”جی ہاں“ پھر اس کی قوم بلائی جائے گی اور پوچھا جائے گا: کیا اس نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: ”نہیں“ نبی سے پوچھا جائے گا: تمہارا گواہ کون ہے؟ وہ کہے گا: محمد اور ان کی امت، پھر محمد کی امت بلائی جائے گی اور کہا جائے گا: کیا اس نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہے گی: ”جی ہاں“ اس سے پوچھا جائے گا: تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ جواب دے گی کہ ہمارے نبی نے ہم کو یہ بتایا کہ رسولوں نے پیغام پہنچا دیا ہے تو ہم نے ان کی تصدیق کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی اللہ تعالیٰ کے قول: «وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا»”اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط بنایا تاکہ تم گواہ رہو لوگوں پر اور رسول گواہ رہیں تمہارے اوپر“(سورة البقرة: 143) کا مطلب ہے“۔
يجيء النبي يوم القيامه ومعه الرجل يجيء النبي ومعه الرجلان يجيء النبي ومعه الثلاثة وأكثر من ذلك وأقل هل بلغت قومك فيقول نعم فيدعى قومه فيقال هل بلغكم فيقولون لا فيقال من يشهد لك فيقول محمد وأمته فتدعى أمة محمد فيقال هل بلغ هذا فيقولون نعم فيقول وما علمكم ب
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4284
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) وسط کا مطلب درمیانہ بہتر اور افضل ہوتا ہے امت محمدیہ کو دوسری امتوں پر یہ افضلیت حاصل ہے کہ ہم پہلے انبیائے کرام پر بھی بغیر دیکھے ایمان رکھتے ہیں۔ اور اس کامطلب معتدل بھی ہے یعنی افراط وتفریط سے پاک اسلام کی تعلیمات افراط وتفریط سے پاک ہیں۔
(2) اللہ کے تمام انبیاء علیہ السلام سچے اور مخلص تھے۔ انھوں نے اپنے فرائض بڑی تندہی اور خلوص سے انجام دیے۔
(3) امت محمدیہ کی شہادت اس یقینی علم کی بنیاد پر ہوگی جو قرآن وحدیث سے حاصل ہوا کیونکہ وحی کے زریعے سے حاصل ہونے والا علم آنکھوں دیکھے واقعہ کے علم سے زیادہ یقینی ہے (4) رسول اللہﷺ کی گواہی امت کی گواہی کی تصدیق اور تایئد کے لئے ہوگی۔
(5) اس آیت سے نبی کریمﷺ کے حاضر ہونے پراستدلال درست نہیں ورنہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ سب امتی بھی حاضر ناضر ہیں جو نبیوں کے حق میں گواہی دیں گے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4284