تخریج: «أخرجه مسلم، القدر، باب في الأمر بالقوة وترك العجز...، حديث:2664.»
تشریح:
1. اس حدیث میں لفظ لو
(جس کے معنی ”اگر“ کے ہوتے ہیں) کے استعمال سے منع کیا گیا ہے جبکہ بعض احادیث سے اس کے استعمال کی گنجائش نظر آتی ہے‘ لہٰذا یہ ممانعت تنزیہی ہے‘ تحریمی نہیں۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ وغیرہ کی یہی رائے ہے۔
مگر بعض علماء نے کہا ہے کہ اگر
” لو
“ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اگر میں فلاں کام اس طرح انجام دیتا تو یقینا اس کا نتیجہ اس طرح برآمد ہوتا تو اس طور پر لفظ لَو کااستعمال حرام ہے۔
اور اگر یہ عقیدہ ہو کہ وہی ہو کر رہنا تھا جو ہو چکا ہے اور ہوگا بھی وہی جو تقدیر الٰہی میں ہے تو ایسی صورت میں لفظ لَوْ کا استعمال درست ہوگا‘ ممنوع نہیں ہوگا۔
2. اسی طرح اگر دین اسلام کی اتباع نہ کرنے یا کم اجر والا کام کرنے اور زیادہ اجر والا کام رہ جانے پر تاسف اور اظہار افسوس کی صورت میں لَوْکہتا ہے تو یہ بھی جائز ہے۔
نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
«لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا سُقْتُ الْھَدْيَ» ”اگر مجھے اس بات کا پہلے پتہ چل جاتا جس کا بعد میں پتہ چلا ہے تو میں قربانی کے جانور ساتھ نہ لاتا۔
“ (صحیح البخاري، التمني، حدیث: ۷۲۲۹) یعنی عمرہ کر کے حلال ہوجاتا پھر آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام نئے سرے سے باندھتا، یعنی حج تمتع کرتا۔
3. اسی طرح اس حدیث سے پتہ چلا کہ قوی و مضبوط مومن کو اللہ تعالیٰ‘ ضعیف و کمزور کے مقابلے میں محبوب رکھتا ہے کیونکہ جہاد میں قوت و طاقت کی ضرورت ہے۔
تندرست و صحت مند آدمی ‘بیمار و کمزور آدمی کے مقابلے میں دین کی خدمت زیادہ کر سکتا ہے اور عبادت میں زیادہ محنت کر سکتا ہے‘ نیز غرباء و مساکین ‘ ضرورت مندوں اور حاجت مندوں کی خدمت بھی زیادہ کر سکتا ہے۔
لیکن قوت و ہمت کے باوجود انسان اسی وقت کچھ کر سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو‘ اس لیے اس میں حکم ہے کہ بہرنوع اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو۔
وہی تمھارا کارساز ہے۔