● صحيح البخاري | 6772 | عبد الرحمن بن صخر | لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشرب وهو مؤمن ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن ولا ينتهب نهبة يرفع الناس إليه فيها أبصارهم وهو مؤمن |
● صحيح البخاري | 6810 | عبد الرحمن بن صخر | لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن ولا يشرب حين يشربها وهو مؤمن والتوبة معروضة بعد |
● صحيح البخاري | 2475 | عبد الرحمن بن صخر | لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشرب وهو مؤمن ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن ولا ينتهب نهبة يرفع الناس إليه فيها أبصارهم حين ينتهبها وهو مؤمن |
● صحيح البخاري | 5578 | عبد الرحمن بن صخر | لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن |
● صحيح مسلم | 202 | عبد الرحمن بن صخر | لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن |
● صحيح مسلم | 208 | عبد الرحمن بن صخر | لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن والتوبة معروضة بعد |
● جامع الترمذي | 2625 | عبد الرحمن بن صخر | لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن ولكن التوبة معروضة |
● سنن أبي داود | 4689 | عبد الرحمن بن صخر | لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن والتوبة معروضة بعد |
● سنن النسائى الصغرى | 4876 | عبد الرحمن بن صخر | لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشرب وهو مؤمن ثم التوبة معروضة بعد |
● سنن النسائى الصغرى | 5663 | عبد الرحمن بن صخر | لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يشرب الخمر شاربها حين يشربها وهو مؤمن ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن ولا ينتهب نهبة يرفع الناس إليه فيها أبصارهم حين ينتهبها وهو مؤمن |
● سنن النسائى الصغرى | 4875 | عبد الرحمن بن صخر | لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن ولا ينتهب نهبة ذات شرف يرفع الناس إليها أبصارهم وهو مؤمن |
● سنن ابن ماجه | 3936 | عبد الرحمن بن صخر | لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن ولا ينتهب نهبة يرفع الناس إليه أبصارهم حين ينتهبها وهو مؤمن |
● صحيفة همام بن منبه | 90 | عبد الرحمن بن صخر | لا يسرق سارق وهو حين يسرق مؤمن ولا يزني زان وهو حين يزني مؤمن ولا يشرب الحدود أحدكم يعني الخمر وهو حين يشربها مؤمن لا ينتهب أحدكم نهبة ذات شرف يرفع إليه المؤمنون أعينهم فيها وهو حين ينتهبها مؤمن ولا يغل أحدكم حين يغل وهو مؤمن وإي |
● مشكوة المصابيح | 53 | عبد الرحمن بن صخر | لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن ... |
● مسند اسحاق بن راهويه | 25 | عبد الرحمن بن صخر | لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن، ولا يسرق السارق حين يسرق وهو مؤمن |
● مسندالحميدي | 1162 | عبد الرحمن بن صخر | لا يزني المؤمن حين يزني وهو مؤمن، ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن، ولا يشرب الخمر حين يشربها وهو مؤمن، ولا ينتهب نهبة حين ينتهبها وهو مؤمن |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3936
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کبیرہ گناہوں کا ارتکاب ایمان کے منافی ہے۔
(2)
کبیرہ گناہوں سے آدمی مرتد نہیں ہوتا، تاہم ان کا ارتکاب یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کا ایمان انتہائی کمزور ہوچکا ہے۔
(3)
ایمان کا مطلب یقین ہے۔
اگر کسی کو یقین ہوکہ اللہ تعالی مجھے اس حرام کی سزا دیگا اور وہ سزا دنیا کی سزا سے بے انتہا زیادہ ہوگی تواس یقین کی موجودگی میں وہ جرم کر ہی نہیں سکتا۔
گناہ اسی وقت ہوتا ہے جب انسان پر وقتی لذت اور دنیوی فائدے کا احساس اس طرح مسلط ہوجاتا ہے کہ وہ آخرت کو فراموش کردیتا ہے۔
(4)
کبیرہ گناہ سے جلد از جلد توبہ کرنا ضروری ہے ورنہ خطرہ ہے کہ ایمان بالکل ہی سلب نہ ہوجائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3936
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 53
´ارتکاب کبائر کے وقت ایمان کا خروج`
«. . . وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا يشرب الْخمر حِين يشْربهَا وَهُوَ مُؤمن وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا ينتهب نهبة ذَات شرف يرفع النَّاس إِلَيْهِ أَبْصَارهم فِيهَا حِينَ يَنْتَهِبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا يَغُلُّ أَحَدُكُمْ حِين يغل وَهُوَ مُؤمن فإياكم إيَّاكُمْ» . . .»
”. . . سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زنا کرنے والا زنا کے وقت مومن نہیں رہتا، چوری کرنے والا چوری کے وقت مومن نہیں رہتا ہے اور شراب خور شراب خوری کے وقت مومن نہیں رہتا ہے اور دوسرے کا مال لوٹنے والا مومن نہیں رہتا ہے کہ لوٹنے کے وقت لوگ اپنی آنکھیں اٹھا کر اس کو دیکھتے ہوں اور خیانت کرنے والا خیانت کے وقت مومن نہیں رہتا ہے۔ تم ان باتوں سے بچو۔“ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 53]
تخریج:
[صحيح بخاري 2475]،
[صحيح مسلم 202]
فقہ الحدیث:
➊ معلوم ہوا کہ ایمان کے بہت سے درجے ہیں، ایمان زیادہ بھی ہوتا ہے اور کم بھی ہوتا ہے۔ چوری اور زنا وغیرہ کبیرہ گناہ کرنے والے کا ایمان، گناہ کی حالت میں اس کے جسم سے نکل کر اس کے سر پر چھتری کی طرح بلند ہو جاتا ہے۔ ایمان نکلنے کے باوجود یہ شخص کافر نہیں ہوتا، بلکہ گناہ گار مسلمان ہی رہتا ہے، بشرطیکہ نواقض اسلام کا ارتکاب نہ کرے۔
➋ زنا، چوری اور مال غنیمت میں خیانت کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔
تنبیہ:
جو لوگ مدرسوں، مساجد، تنظیموں، جماعتوں اور رفاہی کاموں کے بہانے سے چندے کا مال کھا جاتے ہیں وہ بھی اسی حکم میں ہیں۔ انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ایک دن علیم بذات الصدور کے سامنے پیش ہو کر ذرے ذرے کا حساب دینا ہے۔ ایک شخص نے مال غنیمت میں سے ایک چادر چرا لی تھی تو وہی چادر جہنم کی آگ بن کر اس کے جسم سے چمٹ گئی تھی۔
➌ عالم کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو عام فہم مثالیں دے کر سمجھائے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 53
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2475
´ایمان کی نفی سے مراد نفی کمال ہے`
«. . .قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَنْتَهِبُ نُهْبَةً يَرْفَعُ النَّاسُ إِلَيْهِ فِيهَا أَبْصَارَهُمْ حِينَ يَنْتَهِبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، زانی مومن رہتے ہوئے زنا نہیں کر سکتا۔ شراب خوار مومن رہتے ہوئے شراب نہیں پی سکتا۔ چور مومن رہتے ہوئے چوری نہیں کر سکتا۔ اور کوئی شخص مومن رہتے ہوئے لوٹ اور غارت گری نہیں کر سکتا کہ لوگوں کی نظریں اس کی طرف اٹھی ہوئی ہوں اور وہ لوٹ رہا ہو . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَظَالِمِ: 2475]
� لغوی توضیح:
«الْخَمْرَ» شراب۔
«السَّارق» چور۔
«نُهْبَة» ڈاکہ۔
فہم الحدیث:
اس حدیث میں ایمان کی نفی سے مراد نفی کمال ہے یعنی زانی زنا کرتے وقت کامل مومن نہیں ہوتا، یہ مطلب نہیں کہ اس میں ایمان ہوتا ہی نہیں کیونکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ شرک نہ کرنے والا شخص جنت میں داخل ہو جائے گا خواہ اس نے زنا یا چوری کی ہو۔ [صحيح: مسند احمد 260/4]
↰شیخ شعیب ارناؤط اسے صحیح کہتے ہیں۔ [مسند احمد محقق 18310]
واضح رہے کہ آئمہ سلف کا اجماع ہے کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب اگر شرک نہ کرتا ہو تو وہ کافر نہیں بلکہ مومن ہی ہے، البتہ اس کے ایمان میں نقص ہے۔ [شرح مسلم للنوي 42/2، فتح الباري 60/12، مجموع الفتاويٰ لا بن تيمية 92/20]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 36
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4875
´چوری کی سنگینی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو زنا کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، جب چوری کرنے والا چوری کرتا ہے تو چوری کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا۔ جب شراب پینے والا شراب پیتا ہے تو پیتے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، اس کے بعد بھی اب تک اس کی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4875]
اردو حاشہ:
”توبہ“ یہ اشارہ ہے کہ یہاں مطقاً ایمان کی نفی مقصود نہیں بلکہ وقتی طور پر یا ایمان کامل کی نفی مقصود ہے کیونکہ یہ گناہ ہیں، کفر نہیں بشرطیکہ فاعل توبہ کرے اور واپس آجائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4875
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5663
´شراب پینے کے سلسلے میں سخت قسم کی احادیث کا ذکر۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زانی جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن باقی نہیں رہتا، چور جب چوری کرتا ہے تو وہ مومن باقی نہیں رہتا، شرابی جب شراب پیتا ہے تو وہ مومن باقی نہیں رہتا۔ اور جب کوئی قیمتی چیز چراتا ہے جس کی طرف مسلمان (حسرت سے) نگاہیں اٹھا کر دیکھتے ہیں، تو وہ مومن باقی نہیں رہتا۔“ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5663]
اردو حاشہ:
”مومن نہیں رہتا“ البتہ جب وہ ان کاموں سے نکل جاتا ہے تو ایمان لوٹ آتا ہے، یعنی وہ کافر نہیں ہو جاتا بلکہ مسلمان ہی رہتا ہے، البتہ ان کاموں کے دوران میں اس سےنور ایمان چھن جاتا ہےاور جب ان کاموں سے باز آ جا تا ہے تو پھر نور ایمان آ جاتا ہے۔ اس حدیث کا یہ مفہوم حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5663
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2625
´زانی زنا کرتے وقت مومن نہیں رہتا۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو زنا کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا ۱؎ اور جب چوری کرنے والا چوری کرتا ہے تو چوری کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، لیکن اس کے بعد بھی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔“ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2625]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زنا کے وقت مومن کا مل نہیں رہتا،
یا یہ مطلب ہے کہ اگر وہ عمل زنا کوحرام سمجھتا ہے تواس کا ایمان جاتا رہتا ہے،
پھر زنا سے فارغ ہونے کے بعد اس کا ایمان لوٹ آتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2625
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1162
1162- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”مومن زنا کرتے وقت مومن نہیں رہتا۔ وہ چوری کرتے وقت مومن نہیں رہتا۔ شراب پیتے وقت نہیں رہتا اور ڈاکہ ڈالتے وقت یا (کوئی چیز اچک کرلے جاتے وقت) مومن نہیں رہتا۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1162]
فائدہ:
اس حدیث میں کچھ کبیرہ گناہوں کا تذکرہ ہے، اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مومن شخص بھی کبیرہ گناہ نہیں کرتا، یعنی ایمان کی حالت میں گناہ نہیں کیا جا سکتا، ایمان اور گناہ آپس میں متضاد ہیں، ایمان ہو گا تو گناہ نہیں ہو گا، گناہ ہو گا تو ایمان نہیں ہوگا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب مؤمن گناہ کرتا ہے تو اس سے اس کا ایمان نکل جاتا ہے، جیسا کہ صحيح البخاری میں ہے کہ حضرت عکرمہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے پوچھا: کہ ایمان کیسے نکالا جاتا ہے؟ تو انہوں نے جوا باً فرمایا: اس طرح، اور اپنی انگلیوں کے درمیان گرد لگائی پھر اس کو کھولا، پس اگر وہ توبہ کر لے تو اس کا ایمان لوٹ آ تا ہے۔
ترمذی اور ابوداؤد میں ہے کہ جب زانی زنا کرتا ہے تو اس سے اس کا ایمان نکل جاتا ہے، سائے کی طرح اس کے سر پر رہتا ہے، جب وہ اس کام سے فارغ ہو جا تا ہے تو اس کا ایمان واپس لوٹ آتا ہے، اسی طرح ہی دوسرے گناہوں کا معاملہ ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1160
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 202
ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”زانی جب زنا کررہا ہوتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا، اور چور جب چوری کر رہا ہوتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا، اور نہ شراب پیتے وقت (شرابی) مومن ہوتا ہے۔“ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ مذکورہ بالا باتوں کے بعد ان کے ساتھ یہ بات بھی ملاتے، ”نہ (لوٹنے والا) کس بڑی قدر ومنزلت والی چیز کو جس کی طرف لوگ نظر اٹھاتے ہیں، لوٹتے وقت مومن ہوتا ہے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:202]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
يَنْتَهِبُ نُهْبَةً:
چھینتا ہے،
برسرعام لوٹتا ہے۔
(2)
ذَاتَ شَرَفٍ:
مرتبہ و مقام والی چیز بڑی قدرومنزلت والی۔
(3)
أَبْصَارٌ،
بَصَرٌ کی جمع ہے،
نظر،
آنکھ۔
فوائد ومسائل:
گناہ کبیرہ کے ارتکاب کے وقت انسان،
ایمان کی روشنی ونور اور ایمانی بصیرت وفراست سے محروم ہوتا ہے،
گویا اس کا ایمان کامل نہیں ہوتا (جیسا کہ امام نوویؒ نے ترجمہ الباب میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے)
کیونکہ بعض دفعہ کسی شے کی نفی سے مقصد اس کے کمال کی نفی ہوتی ہے،
جیسا کہ کہتے ہیں:
”علم وہی ہے جو فائدہ دے،
مال نہیں مگر اونٹ،
زندگی نہیں مگر آخرت کی زندگی کمال۔
“
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 202
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 208
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ”زانی زنا کی حالت میں مومن نہیں ہوتا، چور چوری کرتے وقت مومن نہیں ہوتا، شرابی شراب پیتے وقت مومن نہیں ہوتا، اس کے باوجود ان کو توبہ کا موقع حاصل ہوتا ہے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:208]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
زنا سے ان تمام کاموں کی طرف اشارہ ہے جو جنسی خواہش کے نتیجہ میں سر زد ہوتے ہیں۔
شراب سے ان تمام گناہوں سے تنبیہ کی ہے،
جو انسان کو یاد الہٰی سے غافل کرتے ہیں،
جن کی بنا پر حقوق اللہ پامال ہوتے ہیں۔
لوٹ مار ان تمام گناہوں کی نمائندہ ہے،
جن میں اللہ تعالیٰ کے بندوں پر ظلم وستم ڈھایا جاتا ہے اور مال ودولت کو ناجائز ذرائع سے جمع کیا جاتا ہے،
لیکن جان کنی سے پہلے پہلے تمام گناہوں کی توبہ قبول ہوتی ہے اورتوبہ کے تین رکن ہیں:
(1)
گناہ سے رک جائے۔
(2)
گناہ کے کرنے پر شرمندہ ہو اور (3)
دل میں عہد کرے کہ آئندہ اس کا مرتکب نہ ہوگا۔
اگر نفس کے غلبہ اور شیطان کےبہکانے کی وجہ سے دوبارہ،
سہ بارہ اس گناہ کا مرتکب ہوجائےتو پھر بھی تو بہ کا دروازہ بند نہیں ہوگا۔
(شرح صحیح مسلم: 1/56)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 208
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5578
5578. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی شخص زنا کرتا ہے تو عین زنا کرتے وقت وہ مومن نہیں ہوتا، جب کوئی شراب پیتا ہے تو عین شراب نوشی کے وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔ جب چور چوری کرتا ہے تو عین چوری کے وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔“ ایک روایت میں(راوئ حدیث) ابو بکر بن عبدالرحمن، سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے مروی اس حدیث میں مذکورہ امور کے ساتھ یہ اضافہ کرتے تھے: ”جب کوئی کسی قدر اور شرافت والے مال و متاع پر ڈاکا دالتا ہے کہ لوگ دیکھتے ہی دیکھتے رہ جائیں تو وہ بھی لوٹ مار کرتے وقت مومن نہیں رہتا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5578]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ ان گناہوں کا ارتکاب کرنے والا ایمان سے بالکل محروم ہو جاتا ہے کیونکہ یہ گناہ ایمان کی ضد ہیں پھر اگر وہ توبہ کر لے تو اس کے دل میں ایمان لوٹ آتا ہے اور اگر یہی کام کرتا رہے تو وہ بے ایمان بن کر مرتا ہے۔
اس کی تائید وہ حدیث کرتی ہے جس میں فرمایا کہ ''والمُؤمِنُ مَن أمِنَه الناسُ على دِمائِهِم وَ أمْوالِهِم'' مومن وہ ہے جس کو لوگ اپنے خون اور اپنے مالوںکے لیے امین سمجھیں، سچ ہے۔
لا إيمانَ لمن لا أمانةَ له، ولا دينَ لمن لا عهدَ له اأو کما قال صلی اللہ علیه وسلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5578
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2475
2475. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”زنا کرنے والا جس وقت زنا کرتا ہے وہ مومن نہیں ہوتا۔ شراب پینے والا جب شراب نوشی کرتا ہے تو ایماندار نہیں رہتا اور جو چور جس وقت چوری کرتا ہے اس وقت مومن نہیں ہوتا اور لوٹنے والا جب کوئی ایسی چیز لوٹتا ہے جس کی طرف لوگ آنکھ کو اٹھا کر دیکھتے ہیں تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔“ سعید اور ابو سلمہ نے بھی حضرت ابو ہریرہ ؓ سے، انھوں نے نبی ﷺ سے ایسی ہی روایت بیان کی ہے لیکن اس میں لوٹ مار کا ذکر نہیں۔ فربری کہتے ہیں۔ میں نے ابو جعفر کے خط کی عبارت بایں الفاظ پائی ہے۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری) فرماتے ہیں کہ ایسے انسان سے نورایمان سلب کر لیا جاتاہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2475]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غارت گری کرنے والا، چوری کرنے والا، لوٹ مار کرنے والا اگر یہ مدعیان اسلام ہیں تو سراسر اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں۔
ایسے افعال کا مرتکب ایمان کے دعویٰ میں جھوٹا ہے، یہی حال زنا کاری، شراب خوری کا ہے۔
ایسے لوگ دعویٰ اسلام و ایمان میں جھوٹے مکار فریبی ہیں۔
مسلمان صاحب ایمان سے اگر کبھی کوئی غلط کام ہو بھی جائے تو حد درجہ پشیمان ہو کر پھر ہمیشہ کے لیے تائب ہو جاتا ہے اور اپنے گناہ کے لیے استغفار میں منہمک رہتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2475
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6810
6810. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں رہتا۔ اور شرابی جب شراب نوشی کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں رہتا۔ پھر ان سب آدمیوں کے لیے توبہ کا دروازہ بہرحال کھلا رہتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6810]
حدیث حاشیہ:
مگر توبہ کی توفیق بھی قسمت والوں کو ملتی ہے۔
توبہ سے پختہ توبہ مراد ہے، نہ کہ رسمی توبہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6810
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2475
2475. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”زنا کرنے والا جس وقت زنا کرتا ہے وہ مومن نہیں ہوتا۔ شراب پینے والا جب شراب نوشی کرتا ہے تو ایماندار نہیں رہتا اور جو چور جس وقت چوری کرتا ہے اس وقت مومن نہیں ہوتا اور لوٹنے والا جب کوئی ایسی چیز لوٹتا ہے جس کی طرف لوگ آنکھ کو اٹھا کر دیکھتے ہیں تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔“ سعید اور ابو سلمہ نے بھی حضرت ابو ہریرہ ؓ سے، انھوں نے نبی ﷺ سے ایسی ہی روایت بیان کی ہے لیکن اس میں لوٹ مار کا ذکر نہیں۔ فربری کہتے ہیں۔ میں نے ابو جعفر کے خط کی عبارت بایں الفاظ پائی ہے۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری) فرماتے ہیں کہ ایسے انسان سے نورایمان سلب کر لیا جاتاہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2475]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے لوٹ مار کرنے کی سنگینی کا پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کی جسارت سے انسان ایمان جیسی نعمت سے محروم ہو جاتا ہے اور جب تک توبہ نہ کر لے اس نعمت سے محروم ہی رہتا ہے۔
ایسا انسان اگر اسلام کا دعوے دار ہے تو اسے جھوٹا قرار دیا جائے گا۔
(2)
اسلام میں ڈاکوؤں اور راہزنوں کے لیے انتہائی سخت سزائیں ہیں تاکہ انسانی معاشرہ امن کے ساتھ زندگی بسر کر سکے۔
انہی قوانین کی برکت ہے کہ آج بھی حکومت سعودیہ کا امن ساری دنیا کے لیے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے جبکہ بزعم خویش مہذب حکومتوں کا ڈاکا زنی کے لیے مختلف صورتیں رائج ہیں اور چوری ایک پیشے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔
ہماری فوج اور پولیس ایسے جرائم پیشہ لوگوں کے سامنے بےبس اور لاچار نظر آتی ہے۔
بہرحال امام بخاری ؒنے اس جرم کی سنگینی بیان کرنے کے لیے مذکورہ عنوان اور احادیث پیش کی ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2475
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5578
5578. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی شخص زنا کرتا ہے تو عین زنا کرتے وقت وہ مومن نہیں ہوتا، جب کوئی شراب پیتا ہے تو عین شراب نوشی کے وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔ جب چور چوری کرتا ہے تو عین چوری کے وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔“ ایک روایت میں(راوئ حدیث) ابو بکر بن عبدالرحمن، سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے مروی اس حدیث میں مذکورہ امور کے ساتھ یہ اضافہ کرتے تھے: ”جب کوئی کسی قدر اور شرافت والے مال و متاع پر ڈاکا دالتا ہے کہ لوگ دیکھتے ہی دیکھتے رہ جائیں تو وہ بھی لوٹ مار کرتے وقت مومن نہیں رہتا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5578]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں مذکور گناہوں کا مرتکب ایمان سے محروم ہو جاتا ہے۔
اگر وہ توبہ کر لے تو اس کے دل میں ایمان لوٹ آتا ہے اور اگر یہی کام کرتا رہے اور اسی حالت میں موت آ جائے تو وہ بے ایمان ہو کر مرتا ہے۔
(2)
اس حدیث میں شراب نوشی کرنے والے کے متعلق بہت سخت وعید ہے کہ اس حالت میں اگر موت آ جائے تو ایمان سے محرومی کا باعث ہے۔
چنانچہ ایک موقوف حدیث میں ہے:
شراب سے احتراز کرو کیونکہ یہ ام الخبائث ہے۔
ایمان اور شراب دونوں اکٹھے اور یکجا نہیں رہ سکتے، ان میں ایک، دوسرے سے انسان کو فارغ کر دیتا ہے۔
(السنن الکبریٰ للبیهقي: 288/8) (3)
اہل سنت کا موقف ہے کہ شراب نوشی کرنے والا کامل ایمان سے محروم ہو جاتا ہے۔
اگر وہ اسے اپنے لیے حلال سمجھتا ہے تو مطلق ایمان سے محرومی کا باعث ہے۔
واللہ اعلم۔
(فتح الباری: 44/10)
حضرت عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
اس سے ایمان کیسے نکال لیا جاتا ہے؟ انہوں نے فرمایا:
اس طرح۔
انہوں نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ میں ڈالیں پھر انہیں نکال لیا۔
اگر وہ توبہ کرے تو ایمان اس کی طرف اس طرح لوٹ آتا ہے۔
پھر انہوں نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں۔
(صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6809)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5578
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6772
6772. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بھی کوئی زنا کرتا ہے تو زنا کرتے وقت وہ مومن نہیں رہتا۔ جب بھی کوئی شراب نوشی کرتا ہے تو شراب پیتے وقت وہ مومن نہیں رہتا۔ جب بھی کوئی چوری کرتا ہے تو چوری کرتے وقت وہ ایمان سے نہیں ہوتا۔ اور جب بھی کوئی لوٹنے والا لوٹتا ہے کہ لوگ اپنی نظریں اٹھا اٹھا کر اسے دیکھتے ہیں تو وہ مومن نہیں رہتا۔ ابن شہاب نے سعید بن مسیّب اور ابو سلمہ سے، وہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے، وہ نبی ﷺ سے لوٹ مار کے الفاظ کے بغیر اسے بیان کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6772]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں زنا، شراب نوشی، چوری اور ڈاکا زنی کے وقت ایمان کی نفی آئی ہے۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ شخص اس وقت کامل ایمان والا نہیں رہتا کیونکہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ جس نے لاإله إلااللہ کہا وہ جنت میں جائے گا اگرچہ وہ زنا کرے اور چوری کرے۔
(صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5827)
نیز حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ انھوں نے چوری اور زنانہ کر نے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔
اس کے آخر میں ہے کہ جو شخص ان گناہوں کا مرتکب ہوگا اگر دنیا میں اس پر حد قائم ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارہ بن جائے گی بصورت دیگر وہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، چاہے تو اسے معاف کر دے اور چاہے تو اسے سزا دے۔
(صحیح البخاري، الحدود، حدیث: 6784) (2)
اہل سنت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب کو کافر نہیں کہا جائے گا، البتہ شرک کرنے سے وہ کافر ہو جائے گا جبکہ خوارج اور معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ کبیرہ گناہوں کے ارتکاب سے انسان دین اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور ایسا شخص ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔
دیگر احادیث خوارج کے موقف کی تردید کرتی ہیں۔
بہرحال مذکورہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر محمول نہیں بلکہ محققین نے اس کی تاویل کی ہے جس کی تفصیل ہم نے بیان کی ہے۔
(فتح الباري: 74/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6772
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6810
6810. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں رہتا۔ اور شرابی جب شراب نوشی کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں رہتا۔ پھر ان سب آدمیوں کے لیے توبہ کا دروازہ بہرحال کھلا رہتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6810]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان روایات میں زنا کی سنگینی بیان کی گئی ہے کہ حالت زنا میں انسان نور ایمان سے محروم ہو جاتا ہے، اگر اسی حالت میں مر جائے تو ایمان سے محروم ہوک ر فوت ہوگیا، البتہ جس میں ایمان کی رمق ہوگی، اسے توبہ کا موقع ملتا ہے لیکن توبہ کا موقع بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ملتا ہے۔
(2)
بہرحال انسان کو چاہیے کہ وہ بدکاری کے راستوں کو اختیار نہ کرے، فحش کلام اور فحش کام کے قریب تک نہ جائے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ جب آدمی زنا کرتا ہے تو ایمان نکل کر اس کے اوپر چھتری کی طرح ہو جاتا ہے اور جب وہ اس بےحد گندے اور برے کام سے فارغ ہوتا ہے تو ایمان لوٹ آتا ہے۔
پھر انھوں نے ابو جعفر محمد بن علی کا قول نقل کیا ہے کہ وہ آدمی ایمان سے اسلام کی طرف لوٹ آتا ہے۔
(جامع الترمذي، الإیمان، حدیث: 2625) (3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک ایمان، اسلام کی ایک خاص حالت ہے جو زنا کے وقت برقرار نہیں رہتی، البتہ اسلام کی حالت باقی رہتی ہے۔
جمہور اہل علم نے اس امر کو ایک دوسرے انداز سے بیان کیا ہے کہ اس سے مراد کامل ایمان ہے، یعنی اس ایمان کامل باقی نہیں رہتا، اصل ایمان سے خروج نہیں ہوتا۔
(فتح الباري: 140/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6810