فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن وہ ہے جس سے لوگوں کو اپنی جان اور مال کا خوف اور ڈر نہ ہو، اور مہاجر وہ ہے جو برائیوں اور گناہوں کو ترک کر دے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11039، ومصباح الزجاجة: 1378)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/20، 21، 22) (صحیح)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3934
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ایمان امن سے ہےاس لیے مومن کی شان یہ ہے کہ اس سے لوگوں کو امن ملے کسی قسم کا خوف و خطرہ نہ ہو۔ مومن بد دیانت نہیں ہوتا اور نہ کسی کے مال وجان کو نقصان پہنچاتا ہے۔
(2) ”ہجرت“ اللہ کی رضا کے لیے وطن چھوڑنے کو کہتے ہیں اس لیے جو شخص اللہ کے لیے وطن چھوڑدیتا ہے اسے چاہیے کہ اسی اللہ کی رضا کے لیے گناہ بھی ترک کردے تاکہ اللہ کے ہاں مہاجر والا بلند مقام حاصل کرسکے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3934
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 34
´نفس کو اللہ و رسول کی اطاعت اور کتاب و سنت پر قائم رکھنا بھی جہاد ہے` «. . . وَزَادَ الْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ» . بِرِوَايَةِ فَضَالَةَ: «وَالْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَالْمُهَاجِر من هجر الْخَطَايَا والذنُوب» . . .» ”. . . امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں سیدنا فضالہ رضی اللہ عنہ سے جو روایت کیا اس میں یہ الفاظ بھی ہیں ”اور کامل مجاہد وہ ہے جس نے اللہ کی عبادت اور اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کیا ہو، اور پورا مہاجر وہ ہے جس نے چھوٹے بڑے گناہوں کو چھوڑ دیا ہو۔“ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 34]
تحقیق الحدیث: اس روایت کی سند صحیح ہے۔ اسے ابن ماجہ [3934] اور أحمد بن حنبل [6؍21 ح 24458] نے بھی روایت کیا ہے، اسے ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے، دیکھئے حدیث صحیح بخاری [7378] اس حدیث کے راوی ابوہانی حمید بن ہانی ثقہ و صدوق تھے۔ «والحمد للـه»
فقہ الحدیث ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف کفار سے جنگ کرنا ہی جہاد نہیں ہے، بلکہ نفس کو اللہ و رسول کی اطاعت اور کتاب و سنت پر قائم رکھنا بھی جہاد ہے۔ دور کے کفار کی بہ نسبت اپنے نفس سے جہاد کرنا بڑا مشکل ہے۔ کفار سے تو بعض اوقات آمنا سامنا ہوتا ہے، جبکہ نفس ہر وقت آدمی سے برسر پیکار رہتا ہے۔ نفس یہی کہتا ہے کہ گرم بستر میں سوئے رہو ابھی بڑا وقت ہے، نماز پڑھ لیں گے، نفس کہتا ہے کہ مال و دولت کو خوب گن گن کر تجوریوں میں رکھو، اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرنا ورنہ مال کم ہو جائے گا اور تم فقیر و محتاج ہو جاؤ گے وغیرہ وغیرہ، خوش قسمت ہے وہ مجاہد جو اپنے نفس سے جہاد کر کے ہر وقت کتاب و سنت پر عمل پیرا ہو کر اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ دیکھئے: [مرعاة المفاتيح ج1 ص104] ➋ جو شخص دارالکفر سے ہجرت کر کے دارالسلام آ جائے اور پھر کتاب و سنت کی مخالفت اور قوم پرستی میں دن رات مصروف رہے، وہ اپنے آپ کو مہاجر نہ سمجھے۔ حقیقی مہاجر تو وہ شخص ہے جو گناہوں اور نافرمانیوں سے مسلسل بچتا رہتا ہے، توبہ کرتا ہے اور دن رات کتاب و سنت پر عمل کرتا اور کرواتا رہتا ہے۔ ➌ مسند احمد میں اس کی صراحت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حدیث مبارک حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمائی تھی۔ [مسند احمد 6؍21 وسندہ صحیح] ➍ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے۔ شیخ عبدالمحسن العباد المدنی فرماتے ہیں: ”اسلام اور ایمان کے الفاظ اگر اکٹھے ذکر کیے جائیں تو ان کے معنی میں فرق ہوتا ہے۔۔۔۔ اسلام، اللہ کے لئے سر تسلیم خم کر دینے اور فرماں برداری کا نام ہے۔ ایمان کی تفسیر باطنی امور سے کی گئی ہے اور یہ اس کے معنی سے مناسب ہے۔ (دل، زبان اور عمل سے) تصدیق و اقرار کو ایمان کہتے ہیں۔ جب اسلام اور ایمان کا مفرداً (علیحدہ علیحدہ) ذکر کیا جائے تو ظاہری و باطنی امور کے دونوں معنی مراد ہوتے ہیں۔“[شرح حديث جبريل، عربي ص 17، اردو ترجمه از راقم الحروف ص24]