عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں حرام نہیں کرتا“ یعنی ضب (گوہ) کو ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ۱- جمہورعلماء کے نزدیک ضب (گوہ) کا گوشت کھانا حلال ہے، ابن ماجہ نے اس باب میں کئی احادیث کا ذکر کیا ہے، جس سے اس کی حلت واضح ہے، ضب (گوہ) امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے دسترخوان پر رکھی گئی، ساتھ میں دودھ اور پنیر بھی تھا، دسترخوان پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے، یہودی عورت کے گوشت میں زہر ملا دینے اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متاثر ہو جانے کے بعد آپ دسترخوان پر موجود چیزوں کے بارے میں سوال کرتے تھے، اور احتیاط کے نقطہ نظر سے یہ بڑی اچھی بات تھی، امہات المؤمنین اور صحابہ کرام کو یہ بات معلوم تھی، یہ بھی واضح رہے کہ آپ بہت نفاست پسند تھے، جبریل علیہ السلام قرآن لے کر آتے تو ان سے ملاقات کے سلسلے میں بھی ہر طرح کی صفائی ستھرائی اور نظافت مطلوب تھی، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ علاقہ حجاز میں آپ کے عہد میں ضب (گوہ) نہ پائی جاتی تھی یا کم پائی جاتی تھی، یا مکہ میں بالخصوص قبیلہ قریش میں ضب (گوہ) کھانے کا رواج نہ تھا، علاقہ میں نہ ہونے کی وجہ سے یا کم پائے جانے کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ یہ عام طور پر بدؤں اور دیہاتیوں کی غذا تھی تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع دی گئی کہ یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے، تو آپ نے اس کے نہ کھانے کا یہ عذر کیا کہ اس سے طبیعت کو گھن آتی ہے، جی نہیں بھرتا کہ اس سے پہلے کبھی اس کے کھانے کا تجربہ نہیں ہوا اور دودھ اور پنیر پر اکتفا کیا، ضب (گوہ) کے دسترخوان پر ہونے کا مطلب ہی یہ تھا کہ امہات المؤمنین کے یہاں اور دوسرے صحابہ کے یہاں بلاکراہت کھانا جائز تھا اور آپ کے دسترخوان پر خالد بن ولید نے اسے مزے لے کر کھایا بھی، اس طرح سے آپ نے اس پر صاد کیا اس کو تقریری سنت کہتے ہیں، اگر ضب (گوہ) حرام ہوتی یا اس کی کراہت کا علم ہوتا تو آپ کی موجودگی میں اس دسترخوان پر اسے کوئی نہ کھاتا اس لیے اس واقعہ سے ضب (گوہ) کی حرمت لازم نہیں آتی۔ شافعی، مالک، احمد اور اکثر فقہاء اور اہل حدیث کے یہاں یہ حلال ہے، اور اس کی حلت کے ثبوت میں بہت سی احادیث وارد ہیں، حرمت کی کوئی دلیل قوی نہیں ہے، سنن ابی داود میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب (گوہ) کھانے سے منع کیا، اس کی سند ضعیف ہے۔ ابن ماجہ نے اوپر ۳۲۴۲ نمبر کی حدیث ذکر فرمائی ہے، بخاری میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں: «الضب لست آكله ولا أحرمه»(۵۵۳۶)(ضب- گوہ- نہ میں کھاتا ہوں نہ اسے حرام قرار دیتا ہوں)۔ صحیح مسلم میں یہ تفصیل ہے کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضب (گوہ) کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے سابقہ جواب دیا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ سوال و جواب منبر رسول پر ہوا، نیز ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث جو اوپر (۳۲۴۱) نمبر پر گزری سے بھی ضب (گوہ) کے گوشت کی حلت ثابت ہے۔ حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: اس حدیث سے ضب (گوہ) کا گوشت کھانا جائز ہے، قاضی عیاض نے ایک جماعت سے اس کی حرمت نقل کی ہے، اور حنفیہ سے اس کا مکروہ ہونا نقل ہے، نووی اس نقل کا انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میرے خیال میں کسی سے بھی (اس کے حرام یا مکروہ ہونے) کا قول صحیح اور ثابت نہیں ہے، اور اگر صحیح بھی ہو تو جواز و حلت کے نصوص سے اور پہلے لوگوں کے اجماع سے یہ رائے مرجوح ہے۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں: ابن المنذر نے علی رضی اللہ عنہ سے اس کا مکروہ ہونا نقل کیا ہے تو علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی صورت میں یہ کون سا اجماع ہوا؟۔ نیز امام ترمذی نے بعض اہل علم سے اس کی کراہت نقل کی ہے۔ امام طحاوی معانی الأثار میں کہتے ہیں: ایک جماعت نے ضب (گوہ) کا گوشت کھانے کو مکروہ کہا ہے، ان میں ابوحنیفہ، ابویوسف، محمد بن الحسن ہیں، نیز فرمایا: محمد بن الحسن نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے استدلال کیا ہے، جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ضب (گوہ) ہدیہ میں آئی، تو آپ نے اسے نہ کھایا، ایک سائل کھڑا ہوا، عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے ضب (گوہ) کو دینا چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”کیا جو چیز تم نہیں کھا رہی ہو وہ سائل کو دو گی“۔ طحاوی کہتے ہیں: اس حدیث میں کراہت کی دلیل اس احتمال کی وجہ سے نہیں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ضب (گوہ) کے گوشت سے گھن کی ہو تو اللہ کے رسول نے یہ سوچا کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے صرف بہترین کھانا ہی پیش کیا جائے، جیسا کہ ردی کھجور دینے سے آپ نے منع فرمایا ہے۔ عبدالرحمن بن حسنہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی غزوہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھوک کا شکار ہوئے، اور صحابہ کرام کو کچھ ضب (گوہ) ملیں تو انہوں نے اسے پکایا، ابھی یہ ہانڈیوں پر ابل ہی رہی تھیں کہ اس کا علم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا تو آپ نے اسے انڈیل دینے کا حکم دیا، اس میں یہ بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کی ایک قوم مسخ کر کے زمین پر رینگنے والی مخلوق بنا دی گئی تھی تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ ضب (گوہ) وہی مسخ شدہ مخلوق نہ ہو، اس لیے اسے انڈیل دو“(اس حدیث کو احمد نے مسند میں روایت کیا ہے،اور ابن حبان نے اس کو صحیح کہا ہے، اور طحاوی نے بھی اس کی روایت کی ہے۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں: اس کی سند شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر ہے صرف ایک راوی ضحاک سے بخاری و مسلم نے روایت نہیں کی ہے، طحاوی نے ایک دوسرے طریق سے روایت کی ہے جس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی کہ لوگوں نے ضب (گوہ) کو بھونا اور اسے کھایا تو نہ تو آپ نے کھایا اور نہ اس کے کھانے سے منع کیا۔ مذکورہ بالا احادیث سے ہر طرح سے ضب (گوہ) کے گوشت کی حلت جائز ہے، اس بارے میں نصوص صریح ہیں، تو جن احادیث میں ضب (گوہ) کے گوشت کھانے کی ممانعت وارد ہے، اس کے درمیان اور حلال ثابت کرنے والی احادیث کے درمیان توفیق و تطبیق یوں دی جائے گی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے جب پکی ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا تھا تو وہ اس خیال کی بنا پر تھا کہ کہیں یہ مسخ شدہ جانور ہی تو نہیں ہے، پھر بعد میں توقف فرمایا تو نہ تو اس کے کھانے کا حکم دیا اورنہ اس کے کھانے سے روکا، اور جب آپ کو اس بات کا علم ہو گیا کہ مسخ شدہ اقوام کی نسل نہیں باقی رہتی تو آپ نے کھانے کی اجازت دے دی، پھر اس کے بعد آپ ضب (گوہ) سے گھن کرنے کی وجہ سے نہ اسے کھاتے تھے نہ اسے حرام قرار دیتے تھے، اور جب وہ آپ کے دسترخوان پر کھائی گئی تو اس سے اس کا مباح ہونا ثابت ہو گیا، کراہت ان آدمیوں کے حق میں ہے جو اس سے گھن کرتے ہوں تو یہ ان کے حق میں کراہت تنزیہی ہو گی، یعنی نہ کھانا ان کے حق میں زیادہ بہتر ہے، اور جن لوگوں کو ضب (گوہ) سے گھن نہیں آتی ان کے لیے احادیث سے ضب (گوہ) کا کھانا جائز اور مباح ٹھہرا، اس سے یہ نہیں لازم آتا کہ گوہ مطلقاً مکروہ ہے۔ امام طحاوی ضب (گوہ) سے متعلق احادیث و آثار کی روایت کے بعد فرماتے ہیں: ان آثار سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ ضب (گوہ) کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور میں بھی اس کا قائل ہوں، اوپر عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث جس میں یہ ہے کہ انہوں نے ہدیہ میں آئی ضب (گوہ) کو سائل کو دینا چاہا تو اللہ کے رسول نے کہا کہ جو چیز تم نہیں کھاتی کیا تم اسے سائل کو دو گی! اس کے بارے میں امام طحاوی کہتے ہیں کہ اس سے محمد بن حسن نے اپنے اصحاب کے لیے دلیل پکڑی ہے، محمد بن حسن کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس چیز کو اللہ کے رسول نے اپنے لیے اور دوسروں کے لیے مکروہ سمجھا،امام طحاوی اس پر تعاقب فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس قصہ میں اس بات کا احتمال ہے کہ وہ آیت کریمہ: «ولستم بآخذيه إلا أن تغمضوا فيه»(سورة البقرة:267) کے قبیل سے ہو، پھر خراب کھجور کو صدقہ میں دینے کی کراہت سے متعلق احادیث ذکر کیں اور براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث نقل کی کہ لوگ اپنی سب سے خراب کھجوروں کو صدقہ میں دینا پسند کرتے تھے تو آیت کریمہ: «أنفقوا من طيبات ما كسبتم»(سورة البقرة:267) نازل ہوئی، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ناپسند کیا کہ عائشہ ضب (گوہ) کو صدقہ میں دیں اس لیے نہیں کہ وہ حرام ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: یہ کلام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طحاوی نے محمد بن حسن کے نزدیک کراہت کو تحریمی سمجھا، جب کہ معروف یہ ہے کہ حنفیہ کی اکثریت کراہت تنزیہی کی قائل ہے، بعض لوگوں کا میلان تحریم کی طرف ہے، ان کی تعلیل یہ ہے کہ ”احادیث مختلف ہیں، اور پہلے کون ہے اور بعد میں کون؟ اس کا جاننا مشکل ہے، اس لیے ہم نے تحریم کو راجح قرار دیا“۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: تحریم کے قائل کا یہ دعویٰ کہ پہلے کون ہے اور بعد میں کون؟ یہ جاننا مشکل ہے، سابقہ احادیث کی بنا پر ممنوع ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: فتح الباری شرح صحیح البخاری، حدیث نمبر ۵۵۳۷)، (نیز: المحلی لإبن حزم ۶/۱۱۲، مسألہ نمبر۱۰۳۲، و الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۵/۱۴۲، توضیح الأحکام للبسام)(حررہ الفریوائی)