(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا مالك، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: وهو على المنبر سئل عن الضب؟، فقال:" لا آكله ولا احرمه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ سُئِلَ عَنِ الضَّبِّ؟، فَقَالَ:" لَا آكُلُهُ وَلَا أُحَرِّمُهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تھے تو ضب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”میں اسے نہ کھاتا ہوں اور نہ ہی اسے حرام قرار دیتا ہوں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ضب: گوہ ایک رینگنے والا جانور جو چھپکلی کے مشابہ ہوتا ہے، اس کو سوسمار بھی کہتے ہیں، سانڈا بھی گوہ کی قسم کا ایک جانور ہے جس کا تیل نکال کر گٹھیا کے درد کے لیے یا طلاء کے لیے استعمال کرتے ہیں، یہ جانور نجد کے علاقہ میں بہت ہوتا ہے، حجاز میں نہ ہونے کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نہ کھایا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر یہ کھایا گیا اس لیے حلال ہے۔ جس جانور کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کھایا اس کو عربی میں ضب کہتے ہیں اور خود حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ یہ نجد کے علاقہ میں پایا جانے والا جانور ہے، جو بلاشبہ حلال ہے۔ احناف اور شیعی فرقوں میں امامیہ کے نزدیک گوہ کا گوشت کھانا حرام ہے، فرقہء زیدیہ کے یہاں یہ مکروہ ہے، لیکن صحیح بات اس کی حلت ہے۔ نجد کے علاقے میں پایا جانے والا یہ جانور برصغیر (ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش) میں پائے جانے والے گوہ یا سانڈے سے بہت سی چیزوں میں مختلف ہے: ضب نامی یہ جانور صحرائے عرب میں پایا جاتا ہے، اور ہندوستان میں پایا جانے والا گوہ یا سانڈاز رعی اور پانی والے علاقوں میں عام طور پر پایا جاتا ہے۔ - نجدی ضب (گوہ) پانی نہیں پیتا اور بلا کھائے اپنے سوراخ میں ایک لمبی مدت تک رہتا ہے، کبھی طویل صبر کے بعد اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے، جب کہ برصغیر کا گوہ پانی کے کناروں پر پایا جاتا ہے، اور خوب پانی پیتا ہے۔ - نجدی ضب (گوہ) شریف بلکہ سادہ لوح جانور ہے، جلد شکار ہو جاتا ہے، جب کہ ہندوستانی گوہ کا پکڑنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ - ہندوستانی گوہ سانپ کی طرح زبان نکالتی اور پھنکارتی ہے، جب کہ نجدی ضب (گوہ) ایسا نہیں کرتی۔ نجدی ضب (گوہ) کی کھال کو پکا کر عرب اس کی کپی میں گھی رکھتے تھے، جس کو ”ضبة“ کہتے ہیں اور ہندوستانی گوہ کی کھال کا ایسا استعمال کبھی سننے میں نہیں آیا اس لیے کہ وہ بدبودار ہوتی ہے۔ ضب اور ورل میں کیا فرق ہے؟ صحرائے عرب میں ضب کے مشابہ اور اس سے بڑا بالو، اور صحراء میں پائے جانے والے جانور کو ”وَرَل“ کہتے ہیں، تاج العروس میں ہے: ورل ضب کی طرح زمین پر رینگنے والا ایک جانور ہے، جو ضب کی خلقت پر ہے، إلا یہ کہ وہ ضب سے بڑا ہوتا ہے، بالو اور صحراء میں پایا جاتا ہے، چھپکلی کی شکل کا بڑا جانور ہے، جس کی دم لمبی اور سر چھوٹا ہوتا ہے، ازہری کہتے ہیں: ”وَرَل“ عمدہ قامت اور لمبی دم والا جانور ہے، گویا کہ اس کی دم سانپ کی دم کی طرح ہے، بسا اوقات اس کی دم دو ہاتھ سے بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے، اور ضب (گوہ) کی دم گانٹھ دار ہوتی ہے، اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت لمبی، عرب ورل کو خبیث سمجھتے اور اس سے گھن کرتے ہیں، اس لیے اسے کھاتے نہیں ہیں، رہ گیا ضب تو عرب اس کا شکار کرنے اور اس کے کھانے کے حریص اور شوقین ہوتے ہیں، ضب کی دم کھُردری، سخت اور گانٹھ والی ہوتی ہے، دم کا رنگ سبز زردی مائل ہوتا ہے، اور خود ضب مٹ میلی سیاہی مائل ہوتی ہے، اور موٹا ہونے پر اس کا سینہ پیلا ہو جاتا ہے، اور یہ صرف ٹڈی، چھوٹے کیڑے اور سبز گھاس کھاتی ہے، اور زہریلے کیڑوں جیسے سانپ وغیرہ کو نہیں کھاتی، اور ورل بچھو، سانپ، گرگٹ اور گوبریلا سب کھاتا ہے، ورل کا گوشت بہت گرم ہوتا ہے، تریاق ہے، بہت تیز موٹا کرتا ہے، اسی لیے عورتیں اس کو استعمال کرتی ہیں، اور اس کی بیٹ (کا سرمہ) نگاہ کو تیز کرتا ہے، اور اس کی چربی کی مالش سے عضو تناسل موٹا ہوتا ہے (ملاحظہ ہو: تاج العروس: مادہ ورل، و لسان العرب) سابقہ فروق کی وجہ سے دونوں جگہ کے نجدی ضب اور ورل اور ہندوستان پائے جانے والے جانور جس کو گوہ یا سانڈا کہتے ہیں، ان میں واضح فرق ہے، بایں ہمہ نجدی ضب (گوہ) کھانا احادیث نبویہ اور اس علاقہ کے مسلمانوں کے رواج کے مطابق حلال ہے، اور اس میں کسی طرح کی قباحت اور کراہت کی کوئی بات نہیں، رہ گیا ہندوستانی گوہ کی حلت وحرمت کا مسئلہ تو سابقہ فروق کو سامنے رکھ کر اس کا فیصلہ کرنا چاہیئے، اگر ہندوستانی گوہ نجاست کھاتا اور اس نجاست کی وجہ سے اس کے گوشت سے یا اس کے جسم سے بدبو اٹھتی ہے تو یہ چیز علماء کے غور کرنے کی ہے، جب گندگی کھانے سے گائے بکری اور مرغیوں کا گوشت متاثر ہو جائے تو اس کا کھانا منع ہے، اس کو اصطلاح میں ”جلالہ“ کہتے ہیں، تو نجاست کھانے والا جانور گوہ ہو یا کوئی اور وہ بھی حرام ہو گا، البتہ برصغیر کے صحرائی علاقوں میں پایا جانے والا گوہ نجد کے ضب (گوہ) کے حکم میں ہو گا۔ ضب اور ورل کے سلسلے میں نے اپنے دوست ڈاکٹر محمد احمد المنیع پروفیسر کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض جو زراعت اور غذا سے متعلق کالج میں پڑھاتے ہیں، اور صحرائے نجد کے جانوروں کے واقف کار ہیں، سوال کیا تو انہوں نے اس کی تفصیل مختصراً یوں لکھ کر دی: نجدی ضب نامی جانور کھایا جاتا ہے، اور ”ورل“ نہیں کھایا جاتا ہے ضب کا شکار آسانی سے کیا جا سکتا ہے اور ورل کا شکار مشکل کام ہے، ضب گھاس کھاتا ہے، اور ورل گوشت کھاتا ہے، ضب چیر پھاڑ کرنے والا جانور نہیں ہے، جب کہ ورل چیر پھاڑ کرنے والا جانور ہے، ضب کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے، اور ورل دھاری دھار ہوتا ہے، ضب کی جلد کھُردری ہوتی ہے اور ورل کی جلد نرم ہوتی ہے، ضب کا سر چوڑا ہوتا ہے، اور وَرل کا سر دم نما ہوتا ہے، ضب کی گردن چھوتی ہوتی ہے، اور ورل کی گردن لمبی ہوتی ہے، ضب کی دم چھوٹی ہوتی ہے اور ورل کی دم لمبی ہوتی ہے، ضب کھُردرا اور کانٹے دار ہوتا ہے، اور ورل نرم ہوتا ہے، ضب اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے، اور ورل بھی اپنی دم سے اپنا دفاع کرتا ہے، اور دم سے شکار بھی کرتا ہے، ضب گوشت بالکل نہیں کھاتا، اور ورل ضب اور گرگٹ سب کھا جاتا ہے، ضب تیز جانور ہے، اور ورل تیز ترضب میں حملہ آوری کی صفت نہیں پائی جاتی جب کہ ورل میں یہ صفت موجود ہے، وہ دانتوں سے کاٹتا ہے، اور دم اور ہاتھ سے حملہ کرتا ہے، ضب ضرورت پڑنے پر اپنا دفاع کاٹ کر اور ہاتھوں سے نوچ کر یا دم سے مار کرتا ہے، اور وَرل بھی ایسا ہی کرتا ہے، ضب میں کچلی دانت نہیں ہے، اور وَرل میں کچلی دانت ہے، ضب حلال ہے، اور ورل حرام، ورل کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ زہریلا جانور ہے۔ صحرائے عرب کا ضب، وَرل اور ہندوستانی گوہ یا سانڈا سے متعلق اس تفصیل کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس جانور کے بارے میں صحیح صورت حال سامنے آ جائے، حنفی مذہب میں بھینس کی قربانی جائز ہے اور دوسرے فقہائے کے یہاں بھی اس کی قربانی اس بنا پر جائز ہے کہ یہ گائے کی ایک قسم ہے، جب کہ گائے کے بارے میں یہ مشہور ہے اور مشاہدہ بھی کہ وہ پانی میں نہیں جاتی جب کہ بھینس ایسا جانور ہے جس کو پانی سے پیار اور کیچڑ سے محبت ہے اور جب یہ تالاب میں داخل ہو جائے تو اس کو باہر نکالنا مشکل ہوتا ہے، اگر بھینس کی قربانی کو گائے پر قیاس کر کے فقہاء نے جائز کہا ہے تو دونوں جگہ گوہ کے بعض فرق کا اعتبار نہ کرتے ہوئے اس جنس کے جانوروں کو حلال ہونا چاہیئے، اہل علم کو فقہی تنگنائے سے ہٹ کر نصوص شرعیہ کی روشنی میں اس مسئلہ پر غور کرنا چاہیئے اور عاملین حدیث کے نقطہٰ نظر کو صحیح ڈھنگ سے سمجھنا چاہیئے۔ گوہ کی کئی قس میں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ بہت سی چیزیں سب میں قدر مشتر کہوں جیسے کہ قوت باہ میں اس کا مفید ہونا اس کی چربی کے طبی فوائد وغیرہ وغیرہ۔ حکیم مظفر حسین اعوان گوہ کے بارے میں لکھتے ہیں: نیولے کے مانند ایک جنگلی جانور ہے، دم سخت اور چھوٹی، قد بلی کے برابر ہوتا ہے، اس کے پنجے میں اتنی مضبوط گرفت ہوتی ہے کہ دیوار سے چمٹ جاتا ہے، رنگ زرد سیاہی مائل، مزاج گرم وخشک بدرجہ سوم … اس کی کھال کے جوتے بنائے جاتے ہیں۔ (کتاب المفردات: ۴۲۷)، ظاہر ہے کہ یہ برصغیر میں پائے جانے والے جانور کی تعریف ہے۔ گوہ کی ایک قسم سانڈہ بھی ہے جس کے بارے میں حکیم مظفر حسین اعوان لکھتے ہیں: مشہور جانور ہے، جو گرگٹ یا گلہری کی مانند لیکن اس سے بڑا ہوتا ہے، اس کی چربی اور تیل دواء مستعمل ہے، مزاج گرم و تر بدرجہ اول، افعال و استعمال بطور مقوی جاذب رطوبت، معظم ذکر، اور مہیج باہ ہے (کتاب المفردات: صفحہ ۲۷۵)
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4319
اردو حاشہ: (1) سانڈا حلال ہے۔ حدیث میں مذکور الفاظ [وَلَا أُحَرِّمُهُ ] اس کی تصریح دلیل ہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی حدیث اس سے بھی صریح ہے کہ انھوں نے ضب، یعنی سانڈے کے متعلق خود رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: [أحَرامٌ الضَّبُّ يا رَسولَ اللَّهِ؟ ]”اے اللہ کے رسول! کیا سانڈا حرام ہے؟“ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: [لا، ولَكِنْ لَمْ يَكُنْ بأَرْضِ قَوْمِي، فأجِدُنِي أعافُهُ ]”نہیں (سانڈا حرام نہیں) لیکن یہ میری قوم کے علاقے میں نہیں تھا، اس لیے میں اس سے (طبعی طور پر) کراہت محسوس کرتا ہوں۔“(صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5391، وصحیح مسلم، الصید والذبائح، حدیث: 1945) (2) معلوم ہوا حلال وطیب چیز جو طبعاً ناپسند ہو اسے کھانا ضروری نہیں۔ اس سے اس کی حلت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ طبی لحاظ سے دیکھا جائے تو ناپسند چیز کھانے سے ناخوش گوار اور منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ (3) حدیث میں لفظ ”ضب“ استعمال ہوا ہے۔ ہمارے ہاں عموماً اس کے معنی ”گوہ“ کیے جاتے ہیں لیکن جو اوصاف ضب کے بیان کیے گئے ہیں، وہ تمام کے تمام سانڈے میں بھی پائے جاتے ہیں، اس لیے درست بات یہی ہے کہ اس سے مراد سانڈا ہے، گوہ نہیں۔ واللہ أعلم۔ (4) معلوم ہوا ضب حرام نہیں ورنہ آپ کھانے سے منع فرما دیتے، بلکہ آپ کے دستر خوان پر آپ کے سامنے اسے کھایا گیا۔ باقی رہا آپ کا اسے نہ کھانا تو آپ کی طبع لطیف کا تقاضا تھا۔ آپ بہت سی ایسی چیزوں سے پرہیز فرماتے تھے جو قطعاً حلال ہیں، مثلاً: لہسن، پیاز وغیرہ۔ حلت اور حرمت الگ چیز ہے اور طبعی کراہت وناپسندیدگی الگ چیز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4319
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 405
´سوسمار (ضب) حلال ہے` «. . . 297- وبه: أن رجلا نادى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، ما ترى فى الضب؟ فقال: ”لست بآكله ولا محرمه.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دی اور کہا: یا رسول اللہ! آپ کا ضب (سمسار) کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ اسے حرام قرار دیتا ہوں . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 405]
تخریج الحدیث: [وأخرجه الترمذي 1790 وقال: ”هذا حديث حسن صحيح“، والنسائي 7/197 ح4320، من حديث مالك به ورواه البخاري 5536، ومسلم 1943، من حديث عبدالله دينار به] تفقه: ➊ ضب (سمسار/سانڈا) حلال ہے جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔ مثلاً دیکھئے حدیث سابق: 70 ➋ اگر کوئی حلال چیز پسند نہ ہو تو اسے کھانا ضروری نہیں ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 297
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1790
´ضب (گوہ) کھانے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ضب (گوہ) کھانے کے بارے میں پوچھا گیا؟ تو آپ نے فرمایا: ”میں نہ تو اسے کھاتا ہوں اور نہ حرام کہتا ہوں“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1790]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: معلوم ہوا کہ ضب کھانا حلال ہے، بعض روایات میں ہے کہ آپﷺ نے اسے کھانے سے منع فرمایا ہے، لیکن یہ ممانعت حرمت کی نہیں بلکہ کراہت کی ہے، کیوں کہ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے فرمایا: اسے کھاؤ یہ حلال ہے، لیکن یہ میرا کھانا نہیں ہے، ضب کا ترجمہ گوہ سانڈا اورسوسمار سے کیا جاتا ہے، واضح رہے کہ اگران میں سے کوئی قسم گرگٹ کی نسل سے ہے تو وہ حرام ہے، زہریلا جانور کیچلی دانت والا پنچہ سے شکارکرنے اور اسے پکڑ کر کھانے والے سبھی جانورحرام ہیں۔ ایسے ہی وہ جانور جن کی نجاست وخباثت معروف ہے، لفظ ضب پر تفصیلی بحث کے لیے سنن ابن ماجہ میں انہی ابواب کا مطالعہ کریں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1790
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5536
5536. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”سانڈا نہ تو میں خود کھاتا ہوں اور نہ اسے حرام قرار دیتا ہوں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5536]
حدیث حاشیہ: ساہنہ ایک جنگلی جانور ہے جو حلال ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں کھایا جیسا کہ یہاں مذکور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5536
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7267
7267. سیدنا توبہ عنبری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: مجھ سے امام شعبی نے فرمایا: تم نے دیکھا سیدنا حسن بصری نبی ﷺ سے کتنی احادیث بیان کرتے ہیں جبکہ میں سیدنا ابن عمر ؓ کی خدمت میں تقریباً ڈیڑھ دو برس رہا ہوں لیکن میں نے انہیں نبی ﷺ سے سوائے ایک حدیث کے اور کوئی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ کے صحابہ کرام میں سے چند حضرات جن میں سیدنا سعد ؓ بھی تھے گوشت کھا رہے تھے کہ امہات المومنین میں سے ایک نے آگاہ کیا کہ یہ سانڈے کا گوشت ہے۔ (یہ سن کر) وہ کھانے سے رک گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”کھاؤ کیونکہ یہ حلال ہے۔۔۔۔۔یا فرمایا: اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔۔۔لیکن میں اسے نہیں کھاتا کیونکہ میری یہ خوراک نہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7267]
حدیث حاشیہ: شعبی کا یہ مطلب نہیں کہ معاذ اللہ امام حسن بصری جھوٹے ہیں بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ امام حسن بصری حدیث بیان کرنے میں بہت جرات کرتے ہیں حالانکہ وہ تابعی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ صحابی ہو کر بہت کم حدیث بیان کرتے تھے۔ یہ احتیاط کی بنا پر تھا کہ خدا نخواستہ کوئی غلط حدیث بیان میں آئے اور میں زندہ دوزخی بنوں کیونکر غلط حدیث بیان کروں۔ تشریح: قرآن وحدیث پر چنگل مارنا اور ان کے خلاف رائے وقیاس سے بچنا بنیاد ایمان ہے۔ سب سے پہلے رائے قیاس پر عمل کرنے اور نصر صریح کو رد کرنے والا ابلیس ہے۔ قرآن مجید کی صریح آیات اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے منکر کی سزا یہی ہے کہ وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانا بنا رہا ہے۔ ایک عورت ذات نے گوشت کے بارے میں بتلایا کہ وہ سانڈے کا گوشت ہے۔ اس کی خبر کو سب نے تسلیم کیا۔ اسی سے عورت کی خبر بھی قبول کی جائے گی بشر طیکہ وہ ثقہ ہو۔ اسی سے خبر واحد کا حجت ہونا ثابت ہوا جو لوگ خبر واحد کو حجت نہیں مانتے ان کا مسلک صحیح نہیں ہے جملہ احادیث کے نقل کرنے سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی مقصد ہے۔ والحمد للہ اولاً وآخراً یہ باب ختم ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7267
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5536
5536. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”سانڈا نہ تو میں خود کھاتا ہوں اور نہ اسے حرام قرار دیتا ہوں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5536]
حدیث حاشیہ: ایک حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے، حضرت ثابت بن ودیعہ کہتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ لشکر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے ہمیں بہت سے سانڈے ملے۔ میں ان میں سے ایک بھون کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آیا اور آپ کے سامنے رکھا۔ آپ نے ایک تنکا لیا اور اس کی انگلیاں شمار کیں، پھر فرمایا: ”بنی اسرائیل کی ایک قوم کو زمینی جانوروں کی شکل میں مسخ کر دیا گیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم وہ کون سے جانور تھے۔ “ پھر آپ نے نہ اسے کھایا اور نہ منع کیا۔ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3795) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سانڈے سے پکی ہوئی ہانڈیاں الٹا دیں۔ (مسند أحمد: 196/4) یہ روایت اس امر پر محمول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ان کے مسخ شدہ ہونے کا گمان تھا تو آپ نے ان ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا۔ جب آپ کو علم ہوا کہ مسخ شدہ انسانوں کی آگے نسل نہیں چلی تو ان کے کھانے سے توقف کیا، نہ خود کھایا اور نہ اس سے منع کیا، البتہ آپ نے خود کھانا پسند نہ فرمایا جس کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔ (فتح الباري: 823/9) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سانڈے کا گوشت کھانے سے منع کیا۔ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3796) لیکن یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس میں اسماعیل بن عیاش نامی راوی مدلس ہے اور اس نے اس روایت کو "عن" سے بیان کیا ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5536
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7267
7267. سیدنا توبہ عنبری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: مجھ سے امام شعبی نے فرمایا: تم نے دیکھا سیدنا حسن بصری نبی ﷺ سے کتنی احادیث بیان کرتے ہیں جبکہ میں سیدنا ابن عمر ؓ کی خدمت میں تقریباً ڈیڑھ دو برس رہا ہوں لیکن میں نے انہیں نبی ﷺ سے سوائے ایک حدیث کے اور کوئی حدیث بیان کرتے نہیں سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ کے صحابہ کرام میں سے چند حضرات جن میں سیدنا سعد ؓ بھی تھے گوشت کھا رہے تھے کہ امہات المومنین میں سے ایک نے آگاہ کیا کہ یہ سانڈے کا گوشت ہے۔ (یہ سن کر) وہ کھانے سے رک گئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”کھاؤ کیونکہ یہ حلال ہے۔۔۔۔۔یا فرمایا: اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔۔۔لیکن میں اسے نہیں کھاتا کیونکہ میری یہ خوراک نہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7267]
حدیث حاشیہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شدت احتیاط کی وجہ سے بہت کم احادیث بیان کرتے تھے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان سے کوئی ایسی بات ہو جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد نہ فرمائی ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے خبر واحد کی حجیت کو بیان فرمایا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ایک عورت کے آگاہ کرنے سے اپنے ہاتھ روک لیے اور اس کی بات پر عمل کیا۔ اس لیے اگر خبر واحد ثقہ راوی سے مروی ہو تو اس کے حجت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7267