ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنین (ماں کے پیٹ کے بچے) کے متعلق سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اگر چاہو تو کھاؤ، کیونکہ اس کی ماں کے ذبح کرنے سے وہ بھی ذبح ہو جاتا ہے“۱؎۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں: میں نے کوسج اسحاق بن منصور کو لوگوں کے قول «الذكاة لا يقضى بها مذمة» کے سلسلے میں کہتے سنا: «مذمۃ» ذال کے کسرے سے ہو تو «ذمام» سے مشتق ہے اور ذال کے فتحہ کے ساتھ ہو تو «ذمّ» سے مشتق ہے۔
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ جنین جب ماں کے ذبح کئے جانے کے بعد مردہ برآمد ہوا ہو تو ایسے جنین کا کھانا حلال ہے، اسے دوبارہ ذبح کرنے کی ضرورت نہیں یہی مذہب اہل حدیث اور جمہور علماء کا ہے، لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اسے دوبارہ ذبح کیا جائے گا مگریہ حدیث ان کے مذہب کے خلاف ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3199
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ۔ پیدائش سے پہلے بچے کی زندگی اور موت ماں کی زندگی اور موت کے تابع ہوتی ہےاس لیے ماں کو ذبح کرنا گویا بچے کو ذبح کرنا ہے۔
(2) بعض علماء نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اس بچے کو بھی اس کی ماں کی طرح ذبح کیا جائے لیکن اس قول پر دل مطمئن نہیں ہوتا کیونکہ اگر بچہ ذندہ برآمد ہوتو اس کے بارے میں شک نہیں ہوسکتا کہ اسے ذبح کرنا ہی چاہیے۔ شک تو اس صورت میں ہوسکتا ہےکہ ماں کے ذبح کرنے سے وہ بھی جان دے دے۔ اسی کے بارے میں سوال کیا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے کھانے کی اجازت دے دی۔ والله اعلم
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3199
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1476
´ماں کے پیٹ میں موجود بچہ کے ذبیحہ کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنین ۱؎ کی ماں کا ذبح ہی جنین کے ذبح کے لیے کافی ہے“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1476]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: بچہ جب تک ماں کی پیٹ میں ر ہے اسے ”جنین“ کہاجاتا ہے۔
2؎: یعنی جب کسی جانور کو ذبح کیا جائے پھر اس کے پیٹ سے بچہ (مردہ) نکلے تو اس بچے کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ بچہ مادہ جانور کے جسم کا ایک حصہ ہے، لہٰذا اسے ذبح نہیں کیا جائے گا، البتہ زندہ نکلنے کی صورت میں وہ بچہ ذبح کے بعد ہی حلال ہوگا۔
نوٹ: (متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ”مجالد“ ضعیف ہیں، دیکھئے: الارواء رقم: 2539)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1476