عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے قتل کا حکم دیا، پھر فرمایا: ”لوگوں کو کتوں سے کیا مطلب ہے“؟ پھر آپ نے کھیت اور باغ کی رکھوالی کرنے والے کتوں کی اجازت دے دی۔ بندار کہتے ہیں: «عین» سے مراد مدینہ کے باغات ہیں۔
وضاحت: ۱؎: مسلم اور نسائی کی روایت میں ہے: «ثم رخص في كلب الصيد والغنم» اس لئے ابن ماجہ کا لفظ تصحیف ہے، صواب «الغنم» ہے۔ (ملاحظہ ہو: حیاۃ الحیوان للدمیری)۔ جو کتے کھیت اور باغ کی حفاظت کے لئے پالے جاتے ہیں ان کا پالنا جائز ہے، دوسری روایت میں ریوڑ یعنی جانوروں کی حفاظت کے لئے بھی پالنا آیا ہے، شریعت سے صرف تین ہی کتوں کا جواز ثابت ہے، ایک شکاری کتا، دوسرے باغ یا کھیت کی حفاظت کا، تیسرے ریوڑ کا، اور اس پر قیاس کر کے دوسری ضرورتوں کے لیے کتوں کو بھی پالا جا سکتا ہے، جیسے جنگل میں چور سے حفاظت کے لئے، اور آج کل جاسوسی کے لیے، امید ہے کہ یہ بھی جائز ہو، لیکن بلاضرورت کتا پالنا ہماری شریعت میں جائز نہیں، بلکہ اس سے اجر اور ثواب میں نقصان پڑتا ہے، جیسے دوسری حدیث میں وارد ہے،اور ایک حدیث میں ہے کہ فرشتے اس مکان میں نہیں جاتے جہاں مورت ہو،یا کتا یعنی رحمت کے فرشتے۔