عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ذویب خزاعی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ہدی کے اونٹ بھیجتے تو فرماتے: ”اگر ان میں سے کوئی تھک کر مرنے کے قریب پہنچ جائے، اور تمہیں اس کے مر جانے کا ڈر ہو، تو اس کو نحر (ذبح) کر ڈالو، پھر اس کے گلے کی جوتی اس کے خون میں ڈبو کر اس کے پٹھے پر مار لگا دو، اور اس میں سے نہ تم کچھ کھاؤ، اور نہ تمہارے ساتھ والے کچھ کھائیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: بلکہ یہ نشان لگا کر اس جانور کو راستہ ہی میں چھوڑ دیا جائے تاکہ لوگ پہچان لیں کہ یہ ہدی کا جانور ہے، اور جو محتاج ہو وہ اس میں سے کھائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذویب اور اس کے ساتھیوں کو اس خیال سے کھانے سے منع فرمایا کہ لوگ تہمت نہ لگائیں کہ اپنے کھانے کی غرض سے اچھے تندرست جانور کو ذبح کر ڈالا، نیز اس سے معلوم ہوا کہ جو ہدی راستہ میں لاچار اور عاجز ہو جائے اس کو اسی طرح ذبح کر کے یہی نشان لگا کر چھوڑ دینا چاہیے، اور صاحب ہدی اور مالداروں کے لیے اس میں سے کھانا جائز نہیں، اور جو ہدی حرم تک پہنچ جائے وہاں نحر کی جائے اس میں سے صاحب ہدی اور مالدار بھی کھا سکتے ہیں، جیسے اوپر حدیث میں گزرا، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور علی رضی اللہ عنہ نے ہدی کے جانوروں کا گوشت کھایا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 66 (1326)، (تحفة الأشراف: 3544)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/225) (صحیح)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3105
اردو حاشہ: فوئاد و مسائل:
(1) اپنے وطن میں رہتے ہوئے کسی کے ہاتھ قربانی کے جانور مکہ بھیج دینا درست ہے۔ اس کا بھی بہت زیادہ ثواب ہے۔
(2) ہدی کا جانور راستے میں تھک جائے یا بیمار ہو جائے، یا مزید سفر نہیں کرسکے تو اسے راستے میں ہی قربان کردیا جائے۔
(3) نحر سے مراد اونٹ کو قربان کرنے کا معروف طریقہ ہے۔ اونٹ کو ذبح کرنے کا قرآن وسنت سے ثابت شدہ طریقہ یہ ہے کہ اسے کھڑا کرکے ذبح کیا جائے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔ ﴿وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ ۖ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ ۖ﴾(الحج 22/ 36) ”اور قربانی کے اونٹ جنھیں ہم نے تمھارے لیے اللہ کی(عظمت) نشانیوں میں سے بنایاہےتمھارے لیے ان میں بہت بھلائی ہےلہذا (نحر کے وقت جب) وہ گھٹنا بندھے کھڑے ہوں تو اس حالت میں تم ان پر اللہ کا نام لو۔“ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ (صواف) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس کے معنی (قياماً) کے ہیں یعنی کھڑے ہونے کی حالت میں اونٹ کو نحر کیا جائے۔ (صحيح البخاري، الحج، باب (119) نحر البدن قائمة) علاوہ ازیں اونت کی بائیں ٹانگ کو باندھ لیا جائے۔ نبی اکرم ﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ قربانی کے موقع پراونٹوں کو اسی طرح ذبح کرتے تھے۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اونٹ کو اسی طرح ذبح کرتےتھے۔ کہ ا س کا بایاں پاؤں بندھا ہوتا اور وہ باقی ماندہ تین پاؤں پر کھڑا ہوتا۔ (سنن أبي داؤد، المناسك، باب كيف تنحرالبدن، حديث: 1767) حضرت زیاد بن جبیر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ ایک شخص کے پاس تشریف لائے جس نے ذبح کرنے کے لیے اپنی اونٹنی کو بٹھایا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: اسے کھڑا کرکے باندھ لو یہی حضرت محمد ﷺ کی سنت ہے۔ (صحيح البخاري، الحج، باب النحر الابل مقيدة، حديث: 1713) اونٹ کے علاوہ دیگر جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہےیعنی ان کا حلق اور ساتھ کی رگیں کاٹی جاتی ہیں۔
(4) جوتی سے نشان لگانے کا مقصد یہ ہے کہ آنے جانے والوں کو معلوم ہوجائےکہ یہ ہدی کا جانور تھا جو عذر کی وجہ سے راستے میں ذبح کردیا گیاہے۔ اور وہ اس کا گوشت کھالیں۔
(5) راستے میں ذبح ہونے والی ہدی کا گوشت قربانی کرنے والا نہیں کھا سکتا۔ نہ اس کے ساتھی کھا سکتے ہیں جبکہ دوسرے عازمین حج یا اس علاقے کے باشندے اس کا گوشت استعمال کرسکتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3105