عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا کہ اللہ کے رسول! آپ نے بال منڈوانے والوں کے لیے تین بار دعا فرمائی، اور بال کتروانے والوں کے لیے ایک بار، اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے شک نہیں کیا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: بلکہ جس حکم کو اللہ تعالیٰ نے پہلی بار بیان کیا اسی پر عمل کیا، قرآن شریف میں ہے: «محلقين رؤوسكم ومقصرين»(سورة الفتح: 27) تو پہلے حلق کو ذکر فرمایا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6410، ومصباح الزجاجة: 1058)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/353) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبد اللّٰه ابن أبي نجيح عنعن وھو مدلس انوار الصحيفه، صفحه نمبر 486
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3045
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔ اور اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 5/ 337، 338 وإرواء الغليل للألباني: 4/ 285، 286 وسنن ابن ماجه بتحقيق الدكور بشار عواد رقم: 3045) بنابریں بال منڈوانے میں چونکہ حکم کی تعمیل کا اظہار زیادہ واضح ہے اور کامل ہے۔ اس کے لیے ان کے لیے تین بار دعا کی گئی۔
(2) حافظ ابن حجر ؒ نے امام خطابی ؒ سے یہ توجیہ نقل کی ہےکہ عربوں میں بال رکھنے کا رواج تھا اور وہ بال منڈوانے کو عجمیوں کا طریقہ سمجھتے تھے اس لیے سر منڈوانے کو ان کا جی نہیں چاہتا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اس کے باوجود سر منڈوا لینا تعمیل حکم کا بلند درجہ ہے۔
(3) شک سے مراد تذبذب اور ہچکچاہٹ کا اظہار ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3045