جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورا منیٰ قربانی کی جگہ ہے، اور مکہ کی سب گلیاں راستے، قربانی کی جگہیں ہیں، پورا عرفات اور پورا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے“۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3048
اردو حاشہ: فوائد وومسائل:
(1) قربانی کے جانور کو منی میں قربان کرنا افضل ہے۔ اور مکہ میں (حدود حرم کے اندر) بھی جائز ہے۔
(2) فجاج کھلے راستوں کو کہتے ہیں۔ مطلب ہے کہ مکے میں ہر راستے سے داخل ہوا جاسکتا ہے۔
(3) آج کل منی میں باقاعدہ ایک قربان گاہ موجود ہے۔ اگر آسانی سے وہاں پہنچنا ہوتو قربانی کا جانور وہیں ذبح کرنا چاہیے۔ اس سے صفائی کا مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوتا اور حاجی کی ضرورت سے زائد گوشت بھی ضائع نہیں ہوتا بلکہ اسے سنبھال لیا جاتا ہے۔ جو بعد میں دور دراز کے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے خاص کر ان علاقوں میں جہاں غذائی قلت ہو۔
(4) منی عرفات اور مزدلفہ میں کسی خاص جگہ خیمہ لگانے یا ٹھہرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ جہاں جگہ ملے وہاں ٹھہرنا چاہیے۔ بلاوجہ دوسروں کو تنگ کرنا جائز نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3048
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1937
´مزدلفہ میں نماز پڑھنے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورا عرفات جائے وقوف ہے پورا منیٰ جائے نحر ہے اور پورا مزدلفہ جائے وقوف ہے مکہ کے تمام راستے چلنے کی جگہیں ہیں اور ہر جگہ نحر درست ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1937]
1937. اردو حاشیہ: عرفات مزدلفہ اور منیٰ میں رسول اللہﷺ کے مقام ہائے وقوف معروف ہیں۔اگر بغیر کسی اذدھام واذیت دینے کے ان مقامات پر وقوف کا موقع مل جائے تو شرف ہے ورنہ ثواب سبھی جگہ برابر ہے۔اسی طرح مکے میں داخلے کے لئے کداء والی جانب افضل ہے ورنہ کہیں سے بھی آیا جاسکتا ہے۔اسی طرح قربانی کے لئے منیٰ افضل ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1937
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3018
´عرفات میں دعا میں دونوں ہاتھ اٹھانے کا بیان۔` ابو جعفر بن محمد باقر کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے تو ہم ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے متعلق پوچھا تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عرفات سارا کا سارا موقف (ٹھہرنے کی جگہ) ہے۔“[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3018]
اردو حاشہ: وادی عرفہ مستثنیٰ ہے۔ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ خطبہ اور ظہر وعصر کی نمازیں وادی نمرہ میں ہوتی ہیں جو کہ عرفات سے باہر ہے، پھر وقوف عرفات میں شروع ہوتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3018
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3048
´مزدلفہ میں فجر امام کے ساتھ نہ پڑھ سکنے والے کے حکم کا بیان۔` ابو جعفر بن محمد باقر کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورا مزدلفہ موقف (ٹھہرنے کی جگہ) ہے۔“[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3048]
اردو حاشہ: ممکن نہیں کہ سب لوگ اس جگہ ٹھہریں جہاں رسول اللہﷺ ٹھہرے تھے، جبکہ حجاج کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3048
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3012
´عرفات میں کہاں ٹھہرے؟` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورا عرفات جائے وقوف ہے، اور بطن عرفہ سے اٹھ جاؤ یعنی وہاں نہ ٹھہرو، اور پورا (مزدلفہ) ٹھہرنے کی جگہ ہے، اور بطن محسر سے اٹھ جاؤ یعنی وہاں نہ ٹھہرو، اور پورا منٰی منحر (مذبح) ہے، سوائے جمرہ عقبہ کے پیچھے کے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3012]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے۔ اور مزید لکھا ہے کہ (الا ماوراء العقبة) جملے کے علاوہ باقی روایت کی اصل صحیح مسلم (1218) اور سنن ابی داؤد (1907، 1936، 1937) میں ہے۔ لہٰذا مذکورہ روایت (الا ماورآء العقبة) جملے کے علاوہ قابل عمل اور حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحيح أبي داؤد (مفصل) للألباني رقم: 1665، 1692، 1693، وضعيف سنن ابن ماجة للألباني رقم: 65 وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد رقم: 3012)
(2) وادی عرنہ عرفات کے قریب ہے عرفات میں شامل نہیں۔ نو ذوالحجہ کو وہاں نہیں ٹھہرنا چاہیے۔ ورنہ وقوف عرفات کا فرض ادا نہیں ہوگا، اور حج فوت ہوجائے گا۔
(3) حج کی ادائیگی کے لیے عرفات میں ٹھہرنا ضروری ہے۔ اگرچہ تھوڑی دیر ہی ٹھہرا جائے۔
(4) سنت یہ ہے کہ ظہر اور عصر کی نمازیں ظہر کے وقت جمع اور قصر کرکے ادا کریں اور پھر عرفات میں دعا اور ذکر الہی میں مشغول رہیں حتی کہ سورج غروب ہوجائے۔
(5) نو ذوالحجہ کو سورج غروب ہونے کے بعد عرفات سے مزدلفہ کی طرف روانہ ہونا چاہیے۔ اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کرکے ادا کرنی چاہییں۔
(4) وادی محسر وہ وادی ہے جہاں ابرہہ کی فوجیں تباہ ہوئی تھیں اس لیے مزدلفہ میں ٹھہرتے وقت احتیاط کرنی چاہیے۔ کہ غلطی سے وادی محسر میں رات نہ گزاریں۔
(6) قربانی منی میں کرنی چاہیے۔ (صحيح البخاري، الحج، باب النحر في منحر النبي ﷺ بمني، حديث: 1711) البتہ اگر کوئی شخص مکہ میں (حدود حرم کے اندر) قربانی کرلے تو بھی جائز ہے۔ (سنن أبي داؤد، المناسك، باب الصلاة بجمع، حديث: 1937 وسنن ابن ماجة، المناسك، باب الذبح، حديث: 3048)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3012