عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ سے عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہم چھوٹے بچوں کو ہماری اپنی گدھیوں پر پہلے ہی روانہ کر دیا، آپ ہماری رانوں پر آہستہ سے مارتے تھے، اور فرماتے تھے: ”میرے بچو! سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں نہ مارنا“۱؎۔ سفیان نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے: ”میں نہیں سمجھتا کہ سورج نکلنے سے پہلے کوئی کنکریاں مارتا ہو“۔
وضاحت: ۱؎: یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ کو صرف جمرہ عقبہ کو کنکری مارتے ہیں اور اس دن سورج نکلتے ہی کنکریاں ماری جاتی ہیں، البتہ گیارہ، بارہ اور تیرہ تاریخ کو تینوں جمرات کو سورج ڈھلنے کے بعد سات سات کنکریاں مارتے ہیں، ان دونوں میں سورج ڈھلنے سے پہلے کنکری مارنا صحیح نہیں ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3025
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نےاسے صحیح قراردیا ہے۔ اور اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔ محققین کی تفصیلی بحث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد بن حنبل: 3/ 504، 505، والإرواء للألباني: 4/ 276)
(2) رسول اللہ ﷺ نے دس ذی الحجہ کو فجر کی نماز مزدلفہ میں ادا کی تھی۔ اس کے بعد کافی روشنی ہوجانے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہے پھر سورج طلوع ہونے سے پہلے مزدلفہ سے منی کی طرف روانہ ہوئے۔ (سنن ابن ماجة، حديث: 3074) اور سورج طلوع ہونے سے پہلے مزدلفہ سے منی کی طرف روانہ ہوئے۔ (سنن ابن ماجة، حديث: 3074) اور سورج طلوع ہونے کے بعد بڑے جمرے پر کنکریاں ماریں (سنن ابن ماجة، حديث: 3074) بچوں پر شفقت کرنی چاہیے نیز انھیں دین کے مسائل نرمی سے سمجھانے چاہییں۔
(3) بچے اورعورتیں صبح صادق ہونے سے پہلےمزدلفہ روانہ ہوسکتے ہیں اور فجر کی نماز منی میں پڑھ سکتے ہیں۔ (سنن النسائي، الحج، باب تقديم النساء والصبيان إلي منازلهم بمزدلفة، حديث: 3035)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3025
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 622
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان` سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ”طلوع آفتاب سے پہلے کنکریاں نہ مارو۔“ اسے نسائی کے علاوہ پانچوں نے روایت کیا ہے اس کی سند میں انقطاع ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 622]
622 فوائد و مسائل: ➊ مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محقیقین نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔ جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل ہے۔ «والله اعلم» مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [الموسوعة الحديثه مسند امام احمد 505، 504/3، والارواء الباني 276/4] ➋ دس ذوالحجہ کو سورج طلوع ہونے کے بعد کنکریاں مارنا مسنون ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ذوالحجہ کو فجر کی نماز مزدلفہ میں ادا کی۔ اس کے بعد خوب روشنی ہو جانے تک ذکر و اذکار میں مشغول رہے، پھر سورج طلوع ہونے سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ کی طرف روانہ ہوئے او ر سورج طلوع ہونے کے بعد بڑے جمرے پر کنکریاں ماریں۔ [صحيح مسلم، الحج، حديث نمبر 1218:، و سنن ابن ماجه، المناسك باب حجةرسول صلى الله عليه وسلم، حديث نمبر: 3074] ➌ جن روایات میں سورج طلوع ہونے سے قبل کنکریاں مارنے کا ذکر ہے تو یہ صرف عورتوں، بچوں اور غلاموں کے لیے ہے۔ جو ان کی خدمت کے لیے ہوں۔ ان کے علاوہ دس ذوالحجہ کو کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ طلوع فجر سے پہلے کنکریاں مارے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ «والله اعلم»
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 622
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3066
´سورج نکلے سے پہلے جمرہ عقبہ کی رمی ممنوع ہے۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم بنی عبدالمطلب کے گھرانے کے بچوں کو گدھوں پر سوار کر کے بھیجا، آپ ہماری رانوں کو تھپتھپا رہے تھے، اور فرما رہے تھے: ”میرے ننھے بیٹو! جب تک سورج نکل نہ آئے جمرہ عقبہ کو کنکریاں نہ مارنا۔“[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3066]
اردو حاشہ: محقق کتاب نے اس روایت کو انقطاع کی وجہ سے ضعیف کہا ہے۔ حسن عرنی، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کر رہا ہے جبکہ اس کا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے، لیکن یہ روایت متعین طرق سے آئی ہے جو کہ متصل ہیں، مثلاً: ترمذی میں یہ روایت مقسم عن ابن عباس کے واسطے سے مروی ہے۔ دیکھیے: (حدیث: 893) اور عطاء نے مقسم کی متابعت بھی کی ہے، لہٰذا یہ روایت دیگر طرق سے صحیح ثابت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 26/ 41-45)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3066
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3067
´سورج نکلے سے پہلے جمرہ عقبہ کی رمی ممنوع ہے۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو (رات میں) پہلے ہی بھیج دیا اور انہیں حکم دیا کہ جب تک سورج نہ نکل آئے جمرہ کی رمی نہ کریں۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3067]
اردو حاشہ: محقق کتاب نے اس روایت کو حبیب بن ابی ثابت کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف کہا ہے لیکن یہاں ان کا عنعنہ مضر نہیں کیونکہ اس کی تائید متعدد صحیح طرق سے ہوتی ہے، لہٰذا یہ روایت صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 26/ 41-45)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3067
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 893
´مزدلفہ سے کمزوروں (عورتوں اور بچوں) کو رات ہی میں بھیج دینے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں میں سے کمزوروں (یعنی عورتوں اور بچوں) کو پہلے ہی روانہ کر دیا، اور آپ نے (ان سے) فرمایا: ”جب تک سورج نہ نکل جائے رمی جمار نہ کرنا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 893]
اردو حاشہ: 1؎: اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ سے رات ہی میں منیٰ بھیج دینا جائز ہے تاکہ وہ بھیڑ بھاڑ سے پہلے کنکریاں مار کر فارغ ہو جائیں لیکن سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں نہ ماریں، ابن عباس کی ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ ہماری رانوں پر دھیرے سے مارتے تھے اور فرماتے تھے: ”اے میرے بچو جمرہ پرکنکریاں نہ مارنا جب تک کہ سورج نہ نکل جائے“، یہی قول راجح ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 893