عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ہم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا، تو جب ہم نے مزدلفہ سے لوٹنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا: مشرکین کہا کرتے تھے: اے کوہ ثبیر! روشن ہو جا، تاکہ ہم جلد چلے جائیں، اور جب تک سورج نکل نہیں آتا تھا وہ نہیں لوٹتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف کیا، آپ سورج نکلنے سے پہلے ہی مزدلفہ سے چل پڑے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: جب عرفات سے نویں تاریخ کو لوٹ کر چلے تو راستہ میں مغرب نہ پڑھے بلکہ مغرب اور عشاء دونوں ملا کر عشاء کے وقت میں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ مزدلفہ میں آ کر پڑھے، پھر رات مزدلفہ ہی میں گزارے اور صبح ہوتے ہی نماز فجر پڑھ کر سورج نکلنے سے پہلے منیٰ کے لیے روانہ ہو جائے گا، مزدلفہ میں رات کو رہنا سنت ہے، اور جو لوگ مزدلفہ میں رات بسر نہیں کرتے وہ بدعت کا کام کرتے ہیں، جس سے حاکم کو منع کرنا چاہیے اور جو کوئی رات کو مزدلفہ میں نہ رہے اس پر ایک دم لازم ہو گا، ابن خزیمہ اور ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ مزدلفہ میں رات کو رہنا رکن ہے، اس صورت میں اس کے ترک سے ان کا حج باطل ہو جائے گا، اور اس کمی کو دم سے نہ دور کیا جا سکے گا، اور رات کو رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آدھی رات کے بعد مزدلفہ میں ٹھہرے اگرچہ ایک گھڑی ہی سہی، اگر اس سے پہلے چل دے گا تو اس پر دم لازم ہو گا، لیکن فجر ہونے سے پہلے سے پھر وہاں لوٹ آئے تو دم ساقط ہو جائے گا، بہرحال رات کی نصف ثانی میں تھوڑی دیر فجر تک مزدلفہ میں ٹھہرنا ضروری ہے، (الروضۃ الندیۃ)۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3022
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مزدلفہ سے سورج طلوع ہونے سے پہلے روانہ ہونا چاہیے مگر اس وقت جب کافی روشنی ہوجائے۔
(2) مسلمانوں کی عبادتیں غیر مسلموں سے مختلف ہیں حتی کہ جوعبادتیں مشترک ہیں ان میں طریق کار میں فرق کردیا گیا ہے۔
(3) جب مشترک عبادتیں بھی مختلف کردی گئیں ہیں تو ان تہواروں میں مسلمانوں کا شریک ہونا کیسے جائز ہوسکتا ہےجو خالص غیر مسلم اور رسمی تہواریں ہیں مثلاً: کرسمس نیا عیسوی سال نوروز، بسنت، دیوالی، میلے ٹھیلے وغیرہ نیز شادی غمی کی وہ رسمیں جو غیر مسلموں میں رائج ہیں مثلاً سالگرہ، برسی، کسی کی وفات پر سیاہ لباس پہننا چراغاں منگنی اور شادی کے موقع پر مردوں اور عورتوں کا اختلاط اور آپس میں ہنسی مذاق، مہندی لیکر اس پر شمعیں جلانا اور عورتوں کا راستوں میں ناچتے ہوئے گاتے ہوئے مہندی لیکر چلنا۔ یہ سب کافروں بالخصوص ہندؤں کی رسمیں ہیں جن کے متعلق دینی غیرت و حمیت رکھنے والا کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہاں! اگر دینی غیرت ہی ختم ہوجائے تو پھر اور بات ہے۔ بنا بریں ایسی خرافات سےتمام مسلمانوں کو مکمل طور پر پرہیز کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3022
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3838
3838. حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ مشرک لوگ مزدلفہ سے واپس نہیں ہوتے تھے حتی کہ سورج کی دھوپ ثبیر پہاڑ پر آ جاتی۔ نبی ﷺ نے ان کی مخالفت کی اور طلوع آفتاب سے پہلے مزدلفہ سے کوچ فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3838]
حدیث حاشیہ: 1۔ مشرکین مکہ دور جاہلیت میں مزدلفہ سے آگے نہیں جاتے تھے بلکہ رات یہاں قیام کرتے پھر صبح کے وقت آواز لگاتے (أَشْرِقْ ثَبِيرُ) اے شبیر پہاڑ! تو دھوپ کی وجہ سے جلدی روشن ہو جاتا کہ ہم گھروں کو واپس جائیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی مخالفت فرمائی۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1684) قریش میں جاہلیت کی یہ رسم اس قدر سرایت کر چکی تھی کہ حضرت جبیر بن مطعم ؓ کا بیان ہے کہ عرفہ کے دن میرا اونٹ گم ہو گیا تو میں اسے تلاش کرتے کرتے کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ میدان عرفہ میں کھڑے ہیں مجھے تعجب ہوا کہ حمس یعنی قریش کا عرفہ میں آنا کیونکر ہے وہ تو مزدلفہ آگے نہیں جاتے۔ رسول اللہ ﷺ ادھر کس لیے آئے ہیں؟ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1664) 2۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے اس جاہلیت کی رسم کو ختم کرتے ہوئےفرمایا: ”پھر تم وہاں سے واپس لوٹو جہاں سے سب لوگ لوٹتے ہیں۔ “(البقرة: 199/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3838