361- سلیمان بن عمروہ اپنی والدہ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بطن وادی سے جمرہ کو کنکریاں مارے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خچر پر سوار تھے اور فرما رہے تھے: ”اے لوگو! تم اطمنان رکھو تم ایک دوسرے کو تنگ نہ کرو اور تم پر لازم ہے کہ اتنی (چٹکی میں آجانے والی) کنکریاں استعمال کرو۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:361]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت کو بھی دینی تعلیم حاصل کرنی چاہیے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ سادگی کی بہت زیادہ اہمیت ہے، جو لوگ ہر معاملہ میں تکلفات سے کام لیتے ہیں، وہ سراسر خسارے اور دھوکے میں ہیں۔ سادگی قرآن وحدیث کے مطابق ہونی چاہیے نہ کہ رہبانیت اور گندگی سے لت پت لوگوں کی طرح ہونی چاہیے، سادگی ہو مگر نفاست کے ساتھ، صاف ستھرا اور خوبصورت لباس پہننا سادگی کے خلاف نہیں ہے، اور نہ ہی یہ تکبر ہے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حج سواری پر بیٹھ کر کرنا بھی درست ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ دوران حج و عمرہ یا کسی بھی موقع پر جہاں بھیٹر ہولوگوں کو تکلیف نہیں دینی چاہیے۔ دوران رمی کنکری استعمال کرنی چاہیے نہ کہ جوتے اور بڑے پتھر۔
اس موقع پر امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی قابل تعریف تحقیق پیش خدمت ہے:
(رمی کی بدعات) جمرات کی رمی کے لیے غسل، رمی سے پہلے کنکریوں کو دھونا، اللہ اکبر کی جگہ سبحان اللہ یا اس کے علاوہ کوئی اور ذکر کرنا، رمی کے وقت ہر کنکری پھینکتے وقت یوں کہنا
”بسم الله، الله اکبر، صدق الله
“ وغيره، و
«لوكره الكافرون» کو مسنون قرار دینا
(بدعت ہے)۔ رمی کے لیے بعض کیفیتوں کی پابندی کرنا جیسا کہ کسی نے کہا: اپنے دائیں انگو ٹھے کا کنارہ انگشت شہادت کے وسط میں رکھے گا، وغیرہ وغیرہ، بدعت ہے۔ رمی کر نے والے کے موقف
(کھڑے ہونے کی جگہ) کی تعیین: یہ کہ اس کے اور جس کے رمی کرنی ہے، اس کے درمیان پانچ ہاتھ یا اس سے زائد کا فاصلہ ہو، جمرات کی جوتوں کے ساتھ رمی
(چھترول) کرنا، یہ تفصیل با حوالہ دیکھنے کے لیے
(بدعات کا انسائیکلو پیڈیا: 603، 602) دیکھیں۔