(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا محمد بن بكار بن بلال الدمشقي ، انبانا محمد بن راشد ، عن سليمان بن موسى ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" كل مستلحق استلحق بعد ابيه الذي يدعى له ادعاه ورثته من بعده، فقضى ان من كان من امة يملكها يوم اصابها فقد لحق بمن استلحقه وليس له فيما قسم قبله من الميراث شيء وما ادرك من ميراث لم يقسم فله نصيبه ولا يلحق إذا كان ابوه الذي يدعى له انكره وإن كان من امة لا يملكها او من حرة عاهر بها فإنه لا يلحق ولا يورث وإن كان الذي يدعى له هو ادعاه فهو ولد زنا لاهل امه من كانوا حرة او امة". قال محمد بن راشد: يعني بذلك ما قسم في الجاهلية قبل الإسلام. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ بِلَالٍ الدِّمَشْقِيُّ ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" كُلُّ مُسْتَلْحَقٍ اسْتُلْحِقَ بَعْدَ أَبِيهِ الَّذِي يُدْعَى لَهُ ادَّعَاهُ وَرَثَتُهُ مِنْ بَعْدِهِ، فَقَضَى أَنَّ مَنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ يَمْلِكُهَا يَوْمَ أَصَابَهَا فَقَدْ لَحِقَ بِمَنِ اسْتَلْحَقَهُ وَلَيْسَ لَهُ فِيمَا قُسِمَ قَبْلَهُ مِنَ الْمِيرَاثِ شَيْءٌ وَمَا أَدْرَكَ مِنْ مِيرَاثٍ لَمْ يُقْسَمْ فَلَهُ نَصِيبُهُ وَلَا يَلْحَقُ إِذَا كَانَ أَبُوهُ الَّذِي يُدْعَى لَهُ أَنْكَرَهُ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَمَةٍ لَا يَمْلِكُهَا أَوْ مِنْ حُرَّةٍ عَاهَرَ بِهَا فَإِنَّهُ لَا يَلْحَقُ وَلَا يُورَثُ وَإِنْ كَانَ الَّذِي يُدْعَى لَهُ هُوَ ادَّعَاهُ فَهُوَ وَلَدُ زِنًا لِأَهْلِ أُمِّهِ مَنْ كَانُوا حُرَّةً أَوْ أَمَةً". قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ: يَعْنِي بِذَلِكَ مَا قُسِمَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ قَبْلَ الْإِسْلَامِ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس بچے کا نسب اس کے والد کے مرنے کے بعد اس سے ملایا جائے مثلاً اس کے بعد اس کے وارث دعویٰ کریں (کہ یہ ہمارے مورث کا بچہ ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں یہ فیصلہ فرمایا: ”اگر وہ بچہ لونڈی کے پیٹ سے ہو لیکن وہ لونڈی اس کے والد کی ملکیت رہی ہو جس دن اس نے اس سے جماع کیا تھا تو ایسا بچہ یقیناً اپنے والد سے مل جائے گا، لیکن اس کو اس میراث میں سے حصہ نہ ملے گا جو اسلام کے زمانے سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں اس کے والد کے دوسرے وارثوں نے تقسیم کر لی ہو، البتہ اگر ایسی میراث ہو جو ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو تو اس میں سے وہ بھی حصہ پائے گا، لیکن اگر اس کے والد نے جس سے وہ اب ملایا جاتا ہے، اپنی زندگی میں اس سے انکار کیا ہو یعنی یوں کہا ہو کہ یہ میرا بچہ نہیں ہے، تو وارثوں کے ملانے سے وہ اب اس کا بچہ نہ ہو گا، اگر وہ بچہ ایسی لونڈی سے ہو جو اس مرد کی ملکیت نہ تھی، یا آزاد عورت سے ہو جس سے اس نے زنا کیا تھا تو اس کا نسب کبھی اس مرد سے ثابت نہ ہو گا، گو اس مرد کے وارث اس بچے کو اس مرد سے ملا دیں، اور وہ بچہ اس مرد کا وارث بھی نہ ہو گا، (اس لیے کہ وہ ولدالزنا ہے) گو کہ اس مرد نے خود اپنی زندگی میں بھی یہ کہا ہو کہ یہ میرا بچہ ہے، جب بھی وہ ولدالزنا ہی ہو گا، اور عورت کے کنبے والوں کے پاس رہے گا، خواہ وہ آزاد ہو یا لونڈی“۔ محمد بن راشد کہتے ہیں: اس سے مراد وہ میراث ہے جو اسلام سے پہلے جاہلیت میں تقسیم کر دی گئی ہو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8712ألف، ومصباح الزجاجة: 971)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطلاق 30 (2265)، مسند احمد (2/181، 219)، سنن الدارمی/الفرائض 45 (3154) (حسن)» (بوصیری نے کہا کہ ابوداود اور ترمذی نے بعض حدیث ذکر کی ہے)
من كان من أمة يملكها يوم أصابها فقد لحق بمن استلحقه وليس له مما قسم قبله من الميراث شيء وما أدرك من ميراث لم يقسم فله نصيبه ولا يلحق إذا كان أبوه الذي يدعى له أنكره إن كان من أمة لم يملكها أو من حرة عاهر بها فإنه لا يلحق به ولا يرث وإن كان الذي يدعى له هو
من كان من أمة يملكها يوم أصابها فقد لحق بمن استلحقه وليس له فيما قسم قبله من الميراث شيء وما أدرك من ميراث لم يقسم فله نصيبه ولا يلحق إذا كان أبوه الذي يدعى له أنكره إن كان من أمة لا يملكها أو من حرة عاهر بها فإنه لا يلحق ولا يورث وإن كان الذي يدعى له هو
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2746
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جاہلیت میں زنا عام تھا۔ لونڈیوں سے زنا کوئی عیب شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ آزاد عورت سے زنا معیوب تو سمجھا جاتا تھا، تاہم اس قسم کے تعلقات بھی عام تھے۔
(2) لونڈی سے جس طرح آقا اولاد حاصل کرتا تھا، آقا کے مرنے کے بعد اس کا کوئی قریبی رشتے دار (بھائی وغیرہ) اس سے اولاد حاصل کرتا تھا، اسی طرح کوئی اجنبی بھی اس سے ناجائز تعلق قائم کرلیتا تھا، اور پھر اس کی اولاد کے بارے میں دعوی کردیتا کہ یہ میری اولاد ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان ہونے والوں میں اس قسم کے جھگڑے سامنے آئے، مثلاً: ایک شخص نے اسلام قبول کرنے سے پہلے ناجائز تعلقات قائم کیے اور اس کے نتیجے میں اولاد پیدا ہوئی۔ اسلام لانے کے بعد اس کی وراثت کا مسئلہ ہوا۔
(3) اس قسم کے واقعات میں پیدا ہونے والے بچے کے دو دعویدار پیدا ہو جاتے تھے۔ ایک عورت کا قانونی شوہر یا اس لونڈی کا اصل مالک، دوسرا وہ مرد جس نے اس آزاد عورت یا لونڈی سے زنا کیا ہوتا۔ دونوں اس کے باپ ہونے کے مدعی ہوتے تھے۔ یا ان دونوں کے بیٹے اس بچے کے بھائی ہونے کا دعویٰ رکھتے تھے۔ جاہلیت میں اس کا فیصلہ قیافہ وغیرہ سے کیا جاتا تھا۔
(4) نبی اکرمﷺ نے یہ قانون بیان فرمایا:
(ا) اگر یہ بچہ جائز تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، یعنی لونڈی کا بچہ اس کے مالک سے ہے، یا آزاد عورت کا بچہ اس کے خاوند سے ہے تو وہ اپنے باپ کا وارث ہے کیونکہ اس کا نسب شرعاً معتبر ہے۔
(ب) یہ بچہ جس کا کہلاتا ہے (عورت کا خاوند یا لونڈی کا مالک) ، اگر اس نے زندگی میں یہ کہہ دیا ہو کہ یہ بچہ میرا نہیں تو اسے اس کا بیٹا نہیں مانا جائے گا، اور اسے وراثت میں سے حصہ نہیں ملے گا۔
(ج) اگر یہ بچہ ناجائز تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، یعنی مرنے والے نے کسی آزاد عورت یا لونڈی سے زنا کیا تھا، اب اگر یہ شخص زندگی میں اعتراف بھی کرچکا ہو کہ یہ لڑکا مجھ سے پیدا ہوا ہے، اس لیے میرا بیٹا ہے، تب بھی اسے اس کا بیٹا تسلیم نہیں کیا جائے گا، نہ اسے وراثت میں حصہ ملے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2746