جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولہ کی دیت قاتلہ کے عصبہ (باپ کے رشتہ داروں) پر ٹھہرائی تو مقتولہ کے عصبہ نے کہا: اس کی میراث کے حقدار ہم ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میراث اس کے شوہر اور اس کے لڑکے کو ملے گی“۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2648
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ بعض محققین نےصحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھئے: (الإرواء للألبانی، رقم: 2649، وصحیح سنن أبي داود للألبانی، التحقیق الثانی، رقم: 2599، 2600) بنابریں جس طرح مرد کے ذمے واجب ہونے والی دیت اس کی برادری ادا کرتی ہے، اسی طرح عورت کے ذمے واجب ہونے والی دیت بھی عورت کی برادری (عاقلہ) ادا کرے گی۔ (عاقلہ کی وضاحت کے لیے دیکھئے فوائد حدیث: 2633)
(2) دیت کے اصولوں کا وراثت کے اصولوں سےکوئی تعلق نہیں۔ وراثت کی تقسیم کے اپنے اصول اور ضوابط ہیں، وہ ان کے مطابق تقسیم ہوگی۔
(3) عصبہ رشتے داروں کو وراثت میں وہ مال ملتا ہے جو اصحاب الفروض کے حصے ادا کرنے کے بعد بچ جائے۔ اصحاب الفروض اور ان کے حصوں کی تفصیل کے لیے علم میراث کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے۔
(4) خاوند اصحاب الفروض میں سے ہے۔ بیٹے قریب ترین عصبہ ہیں، اس لیے خاوند کو اس کا مقرر حصہ دے کر باقی ترکہ بیٹوں میں تقسیم ہوگا۔ اگر مقتول عورت کے بیٹے موجود نہ ہوتے تورسول اللہﷺ خاوند کا حصہ نکال کر مقتول کے ان عصبہ رشتے داروں کو دلوا دیتے جنہوں نے مسئلہ پوچھا تھا۔
(5) مقتول کے وارث ہی یہ حق رکھتے ہیں کہ قاتل سےقصاص یا دیت لینے کا فیصلہ کریں یا معاف کردیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2648
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4575
´جنین (ماں کے پیٹ میں پلنے والے بچہ) کی دیت کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں سے ایک نے دوسری کو قتل کر دیا، ان میں سے ہر ایک کے شوہر بھی تھا، اور اولاد بھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولہ کی دیت قاتلہ کے عصبات پر ٹھہرائی اور اس کے شوہر اور اولاد سے کوئی مواخذہ نہیں کیا، مقتولہ کے عصبات نے کہا: کیا اس کی میراث ہمیں ملے گی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، اس کی میراث تو اس کے شوہر اور اولاد کی ہو گی۔“[سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4575]
فوائد ومسائل: اس روایت کو بعض محقیقین نے صحیح قرار دیا ہے۔ (عاقلہ) سے مراد وہ لوگ ہیں جو وراثت کے متعینہ حصے دے دیے جانے کے بعد باقی مال سمیٹ لیتے ہیں، جیسے کی باپ، بیٹا، بھائی اور چچا وغیرہ مگر اس حدیث میں بیٹے کو عاقلہ سے خارج رکھا گیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4575