عمرو بن شعیب کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی مدلج کے ابوقتادہ نامی شخص نے اپنے بیٹے کو مار ڈالا جس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے دیت کے سو اونٹ لیے: تیس حقے، تیس جذعے، اور چالیس حاملہ اونٹنیاں، پھر فرمایا: مقتول کا بھائی کہاں ہے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”قاتل کے لیے کوئی میراث نہیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: «حقہ»: ایسی اونٹنی جو تین سال پورے کر کے چوتھے میں لگ جائے۔ «جذعہ»: ایسی اونٹنی جو چار سال پورے کر کے پانچویں میں لگ جائے۔ مقتول کا بھائی کہاں ہے؟ یعنی مقتول کے بھائی کو سارا مال دلا دیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15654، ومصباح الزجاجة: 934)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/49)، موطا امام مالک/العقول 17 (10) (صحیح) (شواہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنده منقطع،عمرو بن شعيب لم يدرك عمر رضي اللّٰه عنه و روي أبو داود (4564) عن رسول اللّٰه ﷺ قال: ((ليس للقاتل شئ و إن لم يكن له وارث فوارثه أقرب الناس إليه و لا يرث القاتل شيئًا)) وھو حديث حسن و ھو يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 474
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2646
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: قاتل کو وراثت کے حصے سے محروم کرنے میں یہ حکمت ہے کہ بہت دفعہ قتل کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ قاتل مقتول کی وراثت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس قانون کی وجہ سے قاتل یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ قتل کی صورت میں ترکہ تو ملے گا نہیں، اس کے علاوہ سزائے موت کا خطرہ موجود ہے۔ اگر سزائےموت نہ بھی ملی تو دیت کی ادائیگی لازم ہوگی۔ اس طرح مزید دولت ملنے کے بجائے پہلی دولت بھی ہاتھ سے جائے گی۔ یہ سوچ کروہ قتل سے پرہیز کرےگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2646