(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا يونس بن محمد، حدثنا عبد الواحد بن زياد، حدثنا مجالد، قال: حدثنا الشعبي، عن جابر بن عبد الله:" ان امراتين من هذيل قتلت إحداهما الاخرى ولكل واحدة منهما زوج وولد، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم دية المقتولة على عاقلة القاتلة وبرا زوجها وولدها، قال: فقال: عاقلة المقتولة ميراثها لنا، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا، ميراثها لزوجها وولدها". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا الشَّعْبِيُّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ:" أَنَّ امْرَأَتَيْنِ مِنْ هُذَيْلٍ قَتَلَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا زَوْجٌ وَوَلَدٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِيَةَ الْمَقْتُولَةِ عَلَى عَاقِلَةِ الْقَاتِلَةِ وَبَرَّأَ زَوْجَهَا وَوَلَدَهَا، قَالَ: فَقَالَ: عَاقِلَةُ الْمَقْتُولَةِ مِيرَاثُهَا لَنَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، مِيرَاثُهَا لِزَوْجِهَا وَوَلَدِهَا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں سے ایک نے دوسری کو قتل کر دیا، ان میں سے ہر ایک کے شوہر بھی تھا، اور اولاد بھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولہ کی دیت قاتلہ کے عصبات پر ٹھہرائی اور اس کے شوہر اور اولاد سے کوئی مواخذہ نہیں کیا، مقتولہ کے عصبات نے کہا: کیا اس کی میراث ہمیں ملے گی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، اس کی میراث تو اس کے شوہر اور اولاد کی ہو گی“۔
Narrated Jabir ibn Abdullah: One of the two women of Hudhayl killed the other, Each of them had husband and sons. The Messenger of Allah ﷺ fixed the blood-wit for the slain woman to be paid by the woman's relatives on the father's side. He declared her husband and the child innocent. The relatives of the woman who killed said: We shall inherit from her. The Messenger of Allah ﷺ said: No, her sons and her husband should inherit from her.
USC-MSA web (English) Reference: Book 40 , Number 4558
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (2648) مجالد ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 161
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4575
فوائد ومسائل: اس روایت کو بعض محقیقین نے صحیح قرار دیا ہے۔ (عاقلہ) سے مراد وہ لوگ ہیں جو وراثت کے متعینہ حصے دے دیے جانے کے بعد باقی مال سمیٹ لیتے ہیں، جیسے کی باپ، بیٹا، بھائی اور چچا وغیرہ مگر اس حدیث میں بیٹے کو عاقلہ سے خارج رکھا گیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4575
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2648
´عورت کی دیت اس کے عصبہ (باپ کے رشتہ داروں) پر ہے اور اس کی میراث اس کی اولاد کو ملے گی۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولہ کی دیت قاتلہ کے عصبہ (باپ کے رشتہ داروں) پر ٹھہرائی تو مقتولہ کے عصبہ نے کہا: اس کی میراث کے حقدار ہم ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میراث اس کے شوہر اور اس کے لڑکے کو ملے گی۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2648]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ بعض محققین نےصحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھئے: (الإرواء للألبانی، رقم: 2649، وصحیح سنن أبي داود للألبانی، التحقیق الثانی، رقم: 2599، 2600) بنابریں جس طرح مرد کے ذمے واجب ہونے والی دیت اس کی برادری ادا کرتی ہے، اسی طرح عورت کے ذمے واجب ہونے والی دیت بھی عورت کی برادری (عاقلہ) ادا کرے گی۔ (عاقلہ کی وضاحت کے لیے دیکھئے فوائد حدیث: 2633)
(2) دیت کے اصولوں کا وراثت کے اصولوں سےکوئی تعلق نہیں۔ وراثت کی تقسیم کے اپنے اصول اور ضوابط ہیں، وہ ان کے مطابق تقسیم ہوگی۔
(3) عصبہ رشتے داروں کو وراثت میں وہ مال ملتا ہے جو اصحاب الفروض کے حصے ادا کرنے کے بعد بچ جائے۔ اصحاب الفروض اور ان کے حصوں کی تفصیل کے لیے علم میراث کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے۔
(4) خاوند اصحاب الفروض میں سے ہے۔ بیٹے قریب ترین عصبہ ہیں، اس لیے خاوند کو اس کا مقرر حصہ دے کر باقی ترکہ بیٹوں میں تقسیم ہوگا۔ اگر مقتول عورت کے بیٹے موجود نہ ہوتے تورسول اللہﷺ خاوند کا حصہ نکال کر مقتول کے ان عصبہ رشتے داروں کو دلوا دیتے جنہوں نے مسئلہ پوچھا تھا۔
(5) مقتول کے وارث ہی یہ حق رکھتے ہیں کہ قاتل سےقصاص یا دیت لینے کا فیصلہ کریں یا معاف کردیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2648