سعد اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے کانوں نے سنا، اور میرے دل نے یاد رکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے آپ کو اپنے والد کے علاوہ کی طرف منسوب کرے، جب کہ وہ جانتا ہو کہ وہ اس کا والد نہیں ہے، تو ایسے شخص پر جنت حرام ہے“۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2610
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نسبت کے ثبوت پربہت معاملات کاا انحصار ہےمثلاً:
(ا) محرم نامحرم کی پہچان۔
(ب) وارثت کی تقسیم وغیرہ اس لیے شریعت اسلامیہ میں نسب کی حفاظت کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔
(2) آزاد کرنے اور ہونے والے کے درمیان جو تعلق قائم ہوتا ہے اسےولاء کہتے ہیں اس پر بعض شریعی مسائل کا انحصار ہے مثلاً: نسبی وارثوں کی غیر موجوگی میں وراثت کی تقسم وغیرہ۔
(3) نسب اور ولاء کا جو تعلق قدرتی طور پرقائم ہو گیا ہے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی اس لیے شریعت میں منہ بولے بیٹے یا بھائی وغیرہ جیسے مصنوعی رشتوں کی قانونی اورشریعی حیثیت نہیں۔
(4) باپ کےسوا کسی اور کو والد قراردینا حرام ہے البتہ احترام کے طورپرکسی کوچچا کہہ دینا پیار سے کسی کو بیٹا کہہ دینا اس میں شامل نہیں۔ حرمت اس وقت ہےجب اس مصنوعی رشتوں کو اصلی رشتے کا مقام دینے کی کوشش کی جائے۔
(5) آزاد غلام کے لیے جائز نہیں کہ کسی اور قبیلے سے تعلق قائم کرنے کےلیے اس قبیلے کے کسی فرد کو اپنا آزاد کرنے والا قرار دے۔ اس کی وجہ سے بعض شرعی معاملات میں مشکل پیش آ سکتی ہےاس کے علاوہ یہ ایک بڑی احسان فراموشی بھی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2610
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4327
´باپ کے سوا کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرنا کبیرہ گناہ ہے` «. . . سَمِعْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ . . .» ”. . . ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ جو شخص جانتے ہوئے اپنے باپ کے سوا کسی دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو اس پر جنت حرام ہے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي: 4327]
� لغوی توضیح: «وَعَــاهُ» اسے یاد کر لیا۔ «قَلْبـِيْ» میرے دل نے۔ فہم الحدیث: ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جان بوجھ کر اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ اور اگر کوئی کسی دوسرے ملک میں نیشنیلٹی حاصل کرنے کی غرض سے بھی ایسا کرتا ہے (جیسا کہ آج کل کیا جاتا ہے) تو وہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ منہ بولے بیٹوں کو بھی اپنے ناموں کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے اصلی باپوں کے ناموں سے ہی پکارنا چاہیے جیسا کہ قرآن میں ہے کہ «ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ»[الاحزاب: 5]”لے پالکوں کو ان کے (اصلی) باپوں کی طرف نسبت کر کے پکارو، یہی اللہ کے نزدیک پورا انصاف ہے۔“
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 42
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4327
4327. حضرت ابو عثمان سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت سعد ؓ سے سنا، انہوں نے اللہ کی راہ میں سب سے پہلے تیر پھینکا۔ نیز میں نے ابو بکرہ سے بھی سنا اور وہ ان چند آدمیوں میں سے ہیں جو طائف کے قلعے کی دیوار پر چڑھے اور نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان دونوں حضرات نے کہا کہ ہم نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ”جس نے دیدہ دانستہ خود کو اپنے والد کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب کیا اس پر جنت حرام ہے۔“ ہشام نے کہا: ہمیں معمر نے عاصم سے بیان کیا کہ ان (عاصم) سے ابو العالیہ یا ابو عثمان نہدی نے کہا: میں نے حضرت سعد اور حضرت ابوبکرہ ؓ کو نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے سنا۔ عاصم کہتے ہیں کہ میں نے (ابو العالیہ یا ابو عثمان نہدی سے) کہا: آپ کے ہاں تو دو ایسے شخص گواہی دے رہے ہیں جو تمہیں کافی ہیں۔ انہوں نے کہا: ہاں کیونکہ ان میں سے ایک (سعد بن ابی وقاص ؓ) تو وہ ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4327]
حدیث حاشیہ: حافظ نے کہا یہ ہشام کی تعلیق مجھے موصولاً نہیں ملی اور اس کے سند کے بیان کرنے سے امام بخار ی ؒ کی غرض یہ ہے کہ اگلی روایت کی تفصیل ہوجائے، اس میں مجملًا یہ مذکور تھا کہ کئی آدمیوں کے ساتھ قلعہ پر چڑھے تھے، اس میں بیان ہے کہ وہ تیس آدمی تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4327
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4327
4327. حضرت ابو عثمان سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت سعد ؓ سے سنا، انہوں نے اللہ کی راہ میں سب سے پہلے تیر پھینکا۔ نیز میں نے ابو بکرہ سے بھی سنا اور وہ ان چند آدمیوں میں سے ہیں جو طائف کے قلعے کی دیوار پر چڑھے اور نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان دونوں حضرات نے کہا کہ ہم نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ”جس نے دیدہ دانستہ خود کو اپنے والد کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب کیا اس پر جنت حرام ہے۔“ ہشام نے کہا: ہمیں معمر نے عاصم سے بیان کیا کہ ان (عاصم) سے ابو العالیہ یا ابو عثمان نہدی نے کہا: میں نے حضرت سعد اور حضرت ابوبکرہ ؓ کو نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے سنا۔ عاصم کہتے ہیں کہ میں نے (ابو العالیہ یا ابو عثمان نہدی سے) کہا: آپ کے ہاں تو دو ایسے شخص گواہی دے رہے ہیں جو تمہیں کافی ہیں۔ انہوں نے کہا: ہاں کیونکہ ان میں سے ایک (سعد بن ابی وقاص ؓ) تو وہ ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4327]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺ نے جب طائف کا محاصرہ کیا تو قلعے کے اندر ہی چند آدمیوں نے مشورہ کیا کہ ہم کیوں نہ مسلمان ہوجائیں، لیکن قلعے سے باہر نکلنے کی کوئی صورت نہ بنتی تھی۔ وہ دیوار پر چڑھے اور بکرہ، یعنی سیڑھی کے ذریعے قلعے سے باہرنکلے۔ یہ تحریک جس شخص نے برپا کی تھی وہ ابوبکرہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کا اصل نام نفیع بن حارث ہے اور وہ ثقیف کے غلاموں میں سے ہیں۔ 2۔ پہلی روایت میں قلعے سے نکلنے والوں کی تعداد مبہم تھی، دوسری روایت میں وضاحت کردی گئی کہ ان کی تعداد تئیس(23) تھی۔ سب سے پہلے ابوبکرہ ؓ نیچے اترے، شارحین نے قلعے سے اترنے والوں کے نام بھی لکھے ہیں۔ ان میں زیاد کی والدہ حضرت سمیہ ؓ کے شوہر ازرق بھی تھے۔ یہی وہی زیاد ہے جو بعد میں زیاد بن ابوسفیان کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ حضرت ابوبکرہ ؓ کا مادری بھائی تھا۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ جب زیاد نے خود کو ابوسفیان ؓ کی طرف منسوب کیاتو ابوعثمان نہدی نے حضرت ابوبکرہ ؓ سے کہا: آپ نے یہ کیا کیا ہے؟ پھر انھوں نے مذکورہ حدیث کا حوالہ دیا۔ ابوبکرہ ؓ نے کہا: میں نے بھی یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان حدیث 219(63) 3۔ امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ حضرت ابوبکرہ ؓ ان اصحاب میں سے ہیں جو طائف کا قلعہ پھلانک کررسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان غلاموں کو آزاد کردیا جو قلعے سے اترکر آپ کے پاس حاضر ہوئے تھے۔ (فتح الباري: 58/8۔ )
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4327