عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد میں حد کے نفاذ سے منع فرمایا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8802، ومصباح الزجاجة: 919) (حسن)» (سند میں ابن لہیعہ اور محمد بن عجلان ضعیف ہیں، لیکن شواہد سے یہ حسن ہے)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف لضعف ابن لھيعة“ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 472
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2600
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ باب کی دونوں روایتوں کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھیے: (الإرواء للأبانی: 7/ 329، 371) مسجد ذکرالہی، نماز اور وعظ و نصیحت کے لیے ہے۔ مار پیٹ اور سزا دینا مسجد کے اندر مناسب نہیں۔
(2) اس ممانعت میں یہ حکمت ہے کہ جسے سزا دی جائے گئی وہ چیخے چلائے گا اور حاضرین بھی باتیں کریں گے تو شور ہو گا۔ ہاتھ وغیرہ کاٹنے کی صورت میں مسجد میں خون گرے گا جومسجد کی طہارت وصفائی کے منافی ہے اس لیے مسجد میں حد لگانے سے مسجد کا تقدس مجرح ہوتا ہے۔ واللہ أعلم
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2600
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 716
´مسجد میں اشعار پڑھنے کی ممانعت کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں اشعار پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 716]
716 ۔ اردو حاشیہ: اشعار عام طور پر مبالغہ آرائی بلکہ کذب کا شاہکار ہوتے ہیں، اس لیے ان سے منع فرمایا ورنہ اگر کوئی شعر حمد و نعت اور وعظ و نصیحت کے قبیل سے ہو تو انہیں پڑھا جا سکتا ہے جیسے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے اسلامی اشعار، اس کے باوجود شعروں کی کثرت اچھی چیز نہیں، اس لیے کہ شعر قرآن سے غافل کر دیتے ہیں۔ شعروں کا قافیہ اور وزن دل کو لبھاتا ہے، اس لیے اللہ والوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو قرآن کی بجائے شعروں میں زیادہ مزہ آتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 716
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث749
´جو کام مساجد میں مکروہ ہیں ان کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں خرید و فروخت اور (غیر دینی) اشعار پڑھنے سے منع فرمایا ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 749]
اردو حاشہ: (1) اس حدیث سے گزشتہ حدیث نمبر (748) میں مذکور ایک اور مسئلہ کی تائید ہوگئی یعنی مسجد کو بازار نہ بنایا جائے کیونکہ خرید و فروخت میں سودے پر اکثر تکرار ہوتی ہے جس سے شور پیدا ہوتا ہے اور وہ مسجد کے ادب کے منافی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مسجد میں خرید وفروخت کی صورت میں لوگ بیچنے کی چیزیں مسجد میں لانا شروع کردینگے جس سے نماز کی جگہ تنگ ہو جائے گی اور لوگ مسجد میں عبادت کے بجائے خرید و فروخت کے لیے آنے لگیں گے، گویا مسجد بنانے کا اصل مقصد متاثر ہوگا۔
(2)(تناشد) کا مطلب ایک دوسرے کے مقابلے میں شعر پڑھنا ہے۔ جس طرح اہل عرب جاہلیت میں اپنے اپنے قبیلے کی تعریف میں قصیدے کہتے تھے۔ اسی طرح وہ اشعار جن کا مضمون اخلاق سے گرا ہوا یا خلاف شریعت ہو وہ مسجد سے باہر بھی پڑھنے جائز نہیں مسجد میں تو بالاولی منع ہوگا۔ اس کے برعکس جن شعروں میں توحید کی طرف دعوت اور اخلاق حسنہ کی ترغیب ہو یا کفر وشرک کی تردید اور کفار کی مذمت ہو ایسے اشعار کا مسجد میں پڑھنا سننا جائز ہے۔ حضرت حسان رسول اللہ ﷺ کی اجازت اور تائید سے مسجد نبوی میں اس قسم کے شعر پڑھا کرتے تھے، دیکھیے (صحيح البخاري، بدء الخلق، باب ذكر الملائكة صلوات الله عليهم، حديث: 3212)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 749
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 322
´مسجد میں خرید و فروخت کرنے، کھوئی ہوئی چیز کا اعلان کرنے اور شعر پڑھنے کی کراہت کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں اشعار پڑھنے، خرید و فروخت کرنے، اور جمعہ کے دن نماز (جمعہ) سے پہلے حلقہ باندھ کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 322]
اردو حاشہ: 1؎: اس طرح شعیب کے والد محمد بن عبداللہ ہوئے جوعمرو کے دادا ہیں، اور شعیب کے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص ہوئے۔
2؎: صحیح قول یہ ہے کہ شعیب بن محمد کا سماع اپنے داداعبداللہ بن عمرو بن عاص سے ثابت ہے، اور ”عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ“ کے طریق سے جو احادیث آئی ہیں وہ صحیح اور مطلقاً حجت ہیں، بشرطیکہ ان تک جو سند پہنچتی ہو وہ صحیح ہو۔
3؎: یہی جمہور کا قول ہے اور یہی حق ہے اور جن لوگوں نے اس کی رخصت دی ہے ان کا قول کسی صحیح دلیل پر مبنی نہیں بلکہ صحیح احادیث اس کی تردید کرتی ہیں۔
4؎: مسجد میں شعر پڑھنے کی رخصت سے متعلق بہت سی احادیث وارد ہیں، ان دونوں قسم کی روایتوں میں دو طرح سے تطبیق دی جاتی ہے: ایک تو یہ کہ ممانعت والی روایت کو نہی تنزیہی پر یعنی مسجد میں نہ پڑھنا بہتر ہے، اور رخصت والی روایتوں کو بیان جواز پر محمول کیا جائے، دوسرے یہ کہ مسجد میں فحش اور مخرب اخلاق اشعار پڑھنا ممنوع ہے، رہے ایسے اشعار جو توحید، اتباع سنت اور اصلاح معاشرہ وغیرہ اصلاحی مضامین پر مشتمل ہوں تو ان کے پڑھنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے خود رسول اللہ ﷺ پڑھوایا کرتے تھے۔
نوٹ: (یہ سند حسن ہے، لیکن شواہد سے یہ حدیث صحیح ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 322