(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة حدثنا شبابة ، عن مالك بن انس ، عن الزهري ، عن عبد الله بن صفوان ، عن ابيه ، انه نام في المسجد وتوسد رداءه، فاخذ من تحت راسه، فجاء بسارقه إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فامر به النبي صلى الله عليه وسلم ان يقطع، فقال صفوان: يا رسول الله، لم ارد هذا ردائي عليه صدقة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فهلا قبل ان تاتيني به". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ نَامَ فِي الْمَسْجِدِ وَتَوَسَّدَ رِدَاءَهُ، فَأُخِذَ مِنْ تَحْتِ رَأْسِهِ، فَجَاءَ بِسَارِقِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقْطَعَ، فَقَالَ صَفْوَانُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أُرِدْ هَذَا رِدَائِي عَلَيْهِ صَدَقَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَهَلَّا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ".
صفوان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں سو گئے، اور اپنی چادر کو تکیہ بنا لیا، کسی نے ان کے سر کے نیچے سے اسے نکال لیا، وہ چور کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کاٹے جانے کا حکم دیا، صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرا مقصد یہ نہ تھا، میری چادر اس کے لیے صدقہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے آخر میرے پاس اسے لانے سے پہلے ایسا کیوں نہیں کیا“؟ ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ اگر مسجد یا صحرا میں کوئی مال کا محافظ ہو تو اس کے چرانے میں ہاتھ کاٹا جائے گا، اکثر علماء اسی طرف گئے ہیں کہ قطع کے لئے حرز (یعنی مال کا محفوظ ہونا) ضروری ہے۔
كنت نائما في المسجد على خميصة لي ثمن ثلاثين درهما فجاء رجل فاختلسها مني فأخذ الرجل فأتي به رسول الله فأمر به ليقطع قال فأتيته فقلت أتقطعه من أجل ثلاثين درهما أنا أبيعه وأنسئه ثمنها قال فهلا كان هذا قبل أن تأتيني به
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2595
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) محفوظ جگہ سے مراد ایسی جگہ ہے جہاں عام طور پرانسان کسی چیز کو سنبھال کر رکھتا ہے۔ اور مختلف قسم کے اموال کےلیے ”محفوظ جگہ بھی مختلف ہوتی ہے مثلاً: جانوروں کے لیے ان کا باڑ، کپڑوں کے لیے صندوق وغیرہ اور غلے کے لیے اس کے سکھانےکی جگہ حرز(محفوظ جگہ) ہے۔
(2) گھر سے باہر مالک کی موجوگی ہی اس کے استعمال کی چیز کے لیے حرزہے۔
(3) مالک چور کومعاف کرسکتا ہے۔
(4) حاکم کے سامنے معاملہ پیش ہونے کو بعد جرم معاف نہیں کیا جا سکتا البتہ قتل کے مجرم کو مقتول کے وارث سزائے موت نافذ ہونے سے تک معاف کر سکتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2595
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1062
´چوری کی حد کا بیان` سیدنا صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، جب انہوں نے اس آدمی کے بارے میں سفارش کی جس نے چادر چرائی تھی اور اس کے قطع ید کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ” میرے پاس لانے سے پہلے تمہیں اس پر رحم و ترس کیوں نہ آیا۔۔“ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور ابن جارود اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1062»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الحدود، باب في من سرق من حرز، حديث:4394، والنسائي، قطع السارق، حديث:4882، وابن ماجه، الحدود، حديث:2595، والحاكم:4 /380، والترمذي: لم أجده.»
تشریح: 1. یہ چوری کا واقعہ یوں ہے کہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ بطحاء یا مسجد حرام میں لیٹے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور ان کے سر کے نیچے سے چادر کھینچ لی۔ اسے گرفتار کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش کیا گیااور آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا تو صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اسے معاف کیا اور درگزر کیا۔ آپ نے فرمایا: ”یہ تو نے میرے پاس لانے سے پہلے کیوں نہیں کیا؟“ پھر آپ نے اس شخص کا ہاتھ کاٹ دیا۔ 2.اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ جب مقدمہ عدالت و حاکم کے پاس چلا جائے تو پھر معافی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1062
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4882
´حاکم تک معاملہ پہنچنے کے بعد آدمی چور کو معاف کر دے تو اس کے حکم کا بیان، اور صفوان بن امیہ کی اس حدیث میں عطا کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر۔` صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ان کی چادر چرا لی، وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، تو وہ بولے: اللہ کے رسول! میں نے اسے معاف کر دیا ہے، آپ نے فرمایا: ”ابو وہب! تم نے اسے ہمارے پاس لانے سے پہلے ہی کیوں نہ معاف کر دیا؟“ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹ دی [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4882]
اردو حاشہ: (1) قابل حد مسئلہ جب حاکم کے سامنے پیش کردیا جائے تو پھر اس کی معافی نہیں ہو سکتی۔ ہاں البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ حاکم کے پاس لانے سے پہلے معاف کردیا جائے، تاہم شریعت نے جس چیز کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اس میں حاکم کے پاس لانے کے بعد بھی معافی ہوسکتی ہے جیسے مقتول کے ورثاء قاتل کو بعد میں بھی معاف کرسکتے ہیں۔ (2) اسلامی اور شرعی سزائیں وحشیانہ قطعا نہیں بلکہ یہ تو قابل رشک معاشرے کی تشکیل کے لیے ناگزیر اور حیات بخش ہیں۔ شرعی سزاؤں کے نفاذ سے نہ صرف برائیوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے بلکہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ (3)”کاٹ دیا“ یعنی کاٹنے کا حکم دے دیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4882
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4885
´کون سا سامان محفوظ سمجھا جائے اور کون سا نہ سمجھا جائے؟` صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا، پھر نماز پڑھی، پھر اپنی چادر لپیٹ کر سر کے نیچے رکھی اور سو گئے، ایک چور آیا اور ان کے سر کے نیچے سے چادر کھینچی، انہوں نے اسے پکڑ لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے اور بولے: اس نے میری چادر چرائی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: کیا تم نے ان کی چادر چرائی ہے؟ وہ بولا: ہاں، آپ نے (دو آدمیوں سے) فرمایا: اسے لے جاؤ اور ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4885]
اردو حاشہ: (1) عکرمہ سے یہ روایت بیان کرنے والے دو راوی ہیں: ایک عبدالملک بن ابو بشیر اور دوسرے اشعث بن سوار۔ عبدالملک نے جب یہ روایت بیان کی تو کہا: حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ۔ جب یہی روایت اشعث نے بیان کی تو کہا: عن عکرمۃ عن ابن عباس، یعنی اشعث نے اسے صفوان بن امیہ کے بجائے ابن عباس کی مسند بنایا۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اشعث کی مخالفت، عبدالملک کی روایت کے لیے مضر نہیں کیونکہ وہ ثقہ راوی ہے جبکہ اشعث ضعیف ہے جیسا کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے بذات خود اس کی صراحت اگلی یعنی اشعث کی بیان کردہ روایت میں کردی ہے۔ واللہ أعلم (2) باب کا مقصد یہ ہے کہ چور محفوظ چیز اٹھائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا غیر محفوظ چیز اٹھانے سے وہ چور تو بنے گا لیکن اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ بطور تعزیر کوئی اور سزا دی جا سکتی ہے۔ محفوظ سے مراد مثلا: یا تو مالک کے پاس ہو اور اس نے وہ چیز اپنے پاس سنبھال کر رکھی ہو خواہ وہ سویا ہو یا جاگتا ہو یا وہ چیز بند جگہ میں ہو، مثلا: کمرے کا دروازہ بند ہو۔ لیکن اگر کوئی چیز گھر سے باہر پڑی ہو اور مالک بھی پاس نہ ہو تو اسے غیر محفوظ تصور کیا جا ئے گا۔ یا ایسے مقام پر ہو جو سب کے لیے کھلا ہے مثلا: مسجد، دفتر، سکول وغیرہ اور دروازہ بھی کھلا ہو، مالک بھی پاس نہ ہو تو اسے بھی غیر محفوظ تصور کیا جا ئے گا۔ مذکورہ واقعے میں حضرت صفوان نے چادر تہہ کرکے سر کے نیچے رکھی ہوئی تھی۔ ظاہر ہے یہ محفوظ تھی۔ اس نے چرا کر اپنے آپ کو ہاتھ کاٹنے کا سزاوار قرار دے لیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4885
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4394
´جو شخص کسی چیز کو محفوظ مقام سے چرائے اس کے حکم کا بیان۔` صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں سویا ہوا تھا، میرے اوپر میری ایک اونی چادر پڑی تھی جس کی قیمت تیس درہم تھی، اتنے میں ایک شخص آیا اور اسے مجھ سے چھین کر لے کر بھاگا، لیکن وہ پکڑ لیا گیا، اور اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق حکم دیا کہ اس کا ہاتھ کاٹ لیا جائے، تو میں آپ کے پاس آیا اور عرض کیا: کیا تیس درہم کی وجہ سے آپ اس کا ہاتھ کاٹ ڈالیں گے؟ میں اسے اس کے ہاتھ بیچ دیتا ہوں، اور اس کی قیمت اس پر ادھار چھوڑ دیتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4394]
فوائد ومسائل: فائدہ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ہرچیز کے لئےاس کا (حرز) یعنی محفوظ مقام اس کی مناسبت سےہوتا ہے اور یہ چیز عرف سے جانی جاتی ہے۔ سوئے ہوئے آدمی کا کپڑا جو اس کے سر کے نیچے ہو اپنی محفوظ جگہ میں ہوتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4394