عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(دین کے احکام) مجھ سے سیکھ لو، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے (جنہیں زنا کے جرم میں گھروں میں قید رکھنے کا حکم دیا گیا تھا، اور اللہ کے حکم کا انتظار کرنے کے لیے کہا گیا تھا) راہ نکال دی ہے: کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کا مرتکب ہو تو سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے، اور شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ زنا کرے ہو تو سو کوڑوں اور رجم کی سزا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: محصن (شادی شدہ) زانی اور محصنہ (شادی شدہ) زانیہ کی سزا سو کوڑے ہیں، پھر رجم کا حکم دیا جائے گا، اور اگر کوڑے نہ مارے جائیں اورصرف رجم پر اکتفا کیا جائے تو ایسا بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے انیس رضی اللہ عنہ کو اس عورت کے رجم کا حکم دیا، اور کوڑے مارنے کے لئے نہیں فرمایا، اسی طرح آپ ﷺ نے ماعز اسلمی، غامدیہ رضی اللہ عنہما اور یہود کو رجم کا حکم دیا اورکسی کو کوڑے نہیں لگوائے، اسی طرح شیخین (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) نے اپنی خلافت میں صرف رجم کیا کوڑے نہیں مارے، بعضوں نے کہا: عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کا حکم منسوخ ہے، اور یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس میں سورہ نساء کی آیت کا حوالہ ہے اور سورہ نساء اخیر میں اتری۔ اور حق یہ ہے کہ امام کو اس باب میں اختیار ہے، خواہ کوڑے لگا کر رجم کرے، خواہ رجم ہی پر بس کرے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2550
اردو حاشہ: فوائد ومسائل: ارشاد نبوی: اللہ نےان کے لیے ایک راستہ مقرر کردیا ہے۔ سے اس آیت مبارکہ کی طرف اشارہ ہے جس میں یہ حکم نازل ہواتھا: ﴿وَاللَّاتِي يَأْ تِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّـهُ لَهُنَّ سَبِيلًا﴾ ترجمہ: تمہاری عورتوں میں سے جو بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواه طلب کرو، اگر وه گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو، یہاں تک کہ موت ان کی عمریں پوری کردے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی اور راستہ نکالے۔
(2) رسول اللہ ﷺنے شادی شدہ زانیوں كو صرف سنگ ساری کی سزا دى کوڑے نہیں لگوائے۔ جیساکہ حدیث: 2549میں بیان ہوا۔ اس سےمعلوم ہوتا ہے کوڑوں کی سزاسنگ ساری میں مدغم ہوگئی۔
(3) غیر شادی شدہ کی سزا سوکوڑے مارنا ہےاس کے علاوہ ایک سال کے لیے وطن سے دور بھیجنا ہےتاکہ ماحول تبدیل ہونے سے گناہ کی ترغیب ختم ہو جائے۔ آج کے دورمیں سزائے قید کو جلاوطنی کےمتبادل قرار دیا جا سکتا ہے بشرطیکہ جیل کا ماحول جرائم کی حوصلہ افزائی کرنے والا نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2550
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1434
´شادی شدہ کو رجم (سنگسار) کرنے کا بیان۔` عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(دین خاص طور پر زنا کے احکام) مجھ سے سیکھ لو، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ۱؎ راہ نکال دی ہے: شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ ملوث ہو تو سو کوڑوں اور رجم کی سزا ہے، اور کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کا مرتکب ہو تو سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1434]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: جنہیں زنا کے جرم میں گھروں میں قید رکھنے کا حکم دیا گیا تھا اور اللہ کے حکم کا انتظار کرنے کے لیے کہا گیا تھا، اللہ نے ایسے لوگوں کے لیے راہ نکال دی ہے، اس سے اشارہ اس آیت کی طرف ہے ﴿وَاللاَّتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَآئِكُمْ فَاسْتَشْهِدُواْ عَلَيْهِنَّ أَرْبَعةً مِّنكُمْ فَإِن شَهِدُواْ فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىَ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً﴾(النساء: 15)(یعنی تمہاری عورتوں میں سے جو بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو، اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو، یہاں تک کی موت ان کی عمریں پوری کردے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راستہ نکالے)، یہ ابتدائے اسلام میں بدر کا عورتوں کی وہ عارضی سزا ہے جب زنا کی سزا متعین نہیں ہوئی تھی۔
2؎: جمہور علماء اور ائمہ اربعہ کایہی قول ہے کہ کوڑے کی سزا اور رجم دونوں اکٹھا نہیں ہو سکتے، کیونکہ قتل کے ساتھ اگر کئی حدود ایک ساتھ جمع ہوجائیں توصرف قتل کافی ہوگا اور باقی حدود ساقط ہوجائیں گی۔ (واللہ اعلم)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1434
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4416
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل کی جاتی تو آپﷺ شدت (کرب و تکلیف) محسوس کرتے اور آپﷺ کا چہرہ خاکستری یا سیاہی مائل ہو جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک دن وحی نازل ہونا شروع ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کیفیت سے دوچار ہوئے تو جب یہ کیفیت چھٹی یا زائل ہوئی، آپﷺ نے فرمایا: ”مجھ سے سیکھ لو، اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے راہ مقرر کر دی ہے، یعنی حکم جاری فرمایا ہے، شادی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4416]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) البكر: کنوارا، غیر شادی شدہ مرد یا عورت۔ (2) الثيب: شادی شدہ مرد یا عورت۔ (3) كُرِبَ: کرب و تکلیف پہنچنا۔ (4) تَرَبَّد: سیاہی مائل ہو جانا، کیونکہ ربده، سفید چیز کا سیاہی کی طرف تبدیل ہونا ہے۔ (5) السبيل: قرآن مجید میں سورہ نساء آیت نمبر 15 میں بدکار عورت کی سزا بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا تھا، (انہیں گھروں میں بند رکھو حتیٰ کہ انہیں موت آ جائے یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی سبیل راہ یعنی نیا حکم جاری فرما دے) اور اس حدیث میں اس سبیل کی تعیین یا وضاحت کر دی گئی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مقرر کی ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی قرآن کے سوا حدیث و سنت کی شکل میں بھی اترتی تھی، جس پر آپ قرآن ہی کی طرح عمل کرتے تھے۔ اس وحی میں یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ اگر مرد یا عورت غیر شادی شدہ ہو تو اس کی سزا سو (100) کوڑے اور ایک سال کے لیے شہر بدری ہے اور اگر وہ شادی شدہ ہوں تو ان کے لیے سو کوڑے اور سنگسار کرنا ہے، ائمہ میں اس کی تفصیلات میں کچھ اختلاف ہے، غیر شادی شدہ مرد ہو یا عورت، اس کی سزا سو کوڑے ہے، اس پر اتفاق ہے، لیکن جلا وطنی کے بارے میں مندرجہ ذیل نظریات ہیں: (1) مرد اور عورت دونوں کو ایک سال کے لیے شہر بدر کیا جائے گا، جیسا کہ حدیث کا تقاضا ہے، امام شافعی، امام احمد، اسحاق، ابوثور، ابن ابی لیلی، سفیان ثوری، عطاء، طاوس رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے، خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا اس پر عمل تھا۔ (2) امام مالک اور امام اوزاعی کے نزدیک جلا وطنی صرف مرد کے لیے ہے، عورت دوسری جگہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتی۔ اس لئے اس کو جلا وطن نہیں کیا جائے گا۔ (3) شہر بدری یہ حد میں داخل نہیں ہے، یہ ایک تعزیری حکم ہے، جو حاکم و قاضی کی صوابدید پر موقوف ہے، امام ابو حنیفہ اور امام محمد کا یہی نظریہ ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے (المغني، ج 12، ص 322 تا 335، مسئلہ نمبر 1553) 2۔ شادی شدہ زانی کا حکم: اگر شادی شدہ مرد یا شادہ شدہ عورت زنا کا ارتکاب کرتی ہے تو خارجیوں کے سوا بالاتفاق اہل سنت کے نزدیک ان کو رجم (سنگسار) کر دیا جائے گا، لیکن اس میں اختلاف ہے کہ کیا رجم سے پہلے سو کوڑے لگائے جائیں گے یا نہیں، امام احمد کا ایک قول یہی ہے کہ پہلے (100) کوڑے لگائے جائیں گے، پھر سنگسار کریں گے، جیسا کہ اس روایت میں بیان ہوا ہے، حضرت ابن عباس، حضرت ابن ابی کعب اور ابو ذر رضی اللہ عنہم کا یہی نظریہ تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں اس پر عمل کیا تھا، حسن بصری، اسحاق، داود اور ابن المنذر کا قول بھی یہی ہے، لیکن حضرت عمر، عثمان، ابن مسعود رضی اللہ عنہم اور نخعی، زہری، اوزاعی، مالک، شافعی اور احناف کا موقف یہ ہے اور امام احمد کا دوسرا قول بھی یہی ہے کہ سنگسار کیا جائے گا کوڑے مارنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ماعز اور غامدیہ عورت کو کوڑے نہیں لگائے تھے، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انیس رضی اللہ عنہ کو جس عورت کی طرف بھیجا تھا تو انہیں فرمایا تھا، اگر وہ اعتراف کر لے تو اسے رجم کر دینا، کوڑے مارنے کا حکم نہیں دیا، یہ متفق علیہ روایت ہے، (تفصیل کے لیے، دیکھئے المغنی، ج 12، ص 313، مسئلہ 551، الفصل الثانی، فتح الباری، ج 12، ص 145) ۔ امام شاہ ولی اللہ نے مسوی شرح موطاء ج 2 ص 135 پر لکھا ہے، امام رجم اور کوڑے دونوں سزائیں دینا چاہے تو دے سکتا ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ وہ رجم پر اکتفا کرے، کیونکہ اصل مقصد تو اس کو عبرت بنانا اور اس کو ختم کرنا ہے، جو رجم سے حاصل ہو جاتا ہے۔ " دو سزائیں جمع ہو جائیں تو ان میں سے ہلکی کو شدید کے اندر جمع کرنا ممکن ہے، اس لیے امام کا موقع و محل یا حالات ظروف کے مطابق عمل کرنا چاہیے، اگر دونوں حدوں کو جمع کرنا مناسب ہو تو اس پر عمل کرے جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دونوں سزاؤں کو جمع کیا، اگر حالات کی روشنی میں سنگسار کرنا کافی ہو تو اس پر اکتفا کرے، جیسا کہ ماعز اور غامدیہ یا عسیف رضی اللہ عنہ کے واقعہ میں کیا گیا ہے، هذا ما عندي والله اعلم بالصواب