سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
The Chapters on Charity
19. بَابُ : الْقَرْضِ
19. باب: قرض دینے کا ثواب۔
Chapter: Lending
حدیث نمبر: 2432
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا إسماعيل بن عياش ، حدثني عتبة بن حميد الضبي ، عن يحيى بن ابي إسحاق الهنائي ، قال: سالت انس بن مالك الرجل منا يقرض اخاه المال فيهدي له، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا اقرض احدكم قرضا فاهدى له او حمله على الدابة فلا يركبها ولا يقبله إلا ان يكون جرى بينه وبينه قبل ذلك".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ ، حَدَّثَنِي عُتْبَةُ بْنُ حُمَيْدٍ الضَّبِّيُّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاق الْهُنَائِيِّ ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ الرَّجُلُ مِنَّا يُقْرِضُ أَخَاهُ الْمَالَ فَيُهْدِي لَهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَقْرَضَ أَحَدُكُمْ قَرْضًا فَأَهْدَى لَهُ أَوْ حَمَلَهُ عَلَى الدَّابَّةِ فَلَا يَرْكَبْهَا وَلَا يَقْبَلْهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ جَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ قَبْلَ ذَلِكَ".
یحییٰ بن ابی اسحاق ہنائی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ہم میں سے ایک شخص اپنے مسلمان بھائی کو مال قرض دیتا ہے، پھر قرض لینے والا اس کو تحفہ بھیجتا ہے تو یہ عمل کیسا ہے؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: تم میں سے جب کوئی کسی کو قرض دے، پھر وہ اس کو تحفہ دے یا اسے اپنے جانور پر سوار کرے، تو وہ سوار نہ ہو اور نہ تحفہ قبول کرے، ہاں، اگر ان کے درمیان پہلے سے ایسا ہوتا رہا ہو تو ٹھیک ہے ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: یعنی قرض دینے سے پہلے بھی اس کے پاس سے تحفہ آیا کرتا ہو، یا وہ سواری دیا کرتا ہو تو اب بھی اس کا قبول کرنا درست ہے اور جو قرض سے پہلے اس کی عادت نہ تھی تو یقیناً اس کا سبب قرض ہو گا اور ہماری شریعت میں قرض دے کر منفعت اٹھانا درست نہیں، اور بخاری نے تاریخ میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی کسی کو قرض دے تو اس کا تحفہ نہ لے، اور بیہقی نے سنن کبری میں ابن مسعود، ابی بن کعب، عبد اللہ بن سلام اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت کی ہے کہ ان سبھوں نے کہا: جس قرض سے منفعت ہو وہ سود ہے یعنی سود کی قسموں میں سے ایک قسم ہے، ان سب احادیث و آثار سے یہ معلوم ہوا کہ ہمارے زمانہ میں جو قرض دے کر اس پر شرح فیصدسے منفعت کی شرط ٹھہراتے ہیں مثلاً سات روپیہ فی صد یا دس روپیہ فی صد، یہ «ربا» (سود) ہے اور حرام ہے، اور تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے اور اس صورت میں بینک اوردوسرے کاروباری ادارے جو سودی نظام چلاتے ہیں ان سے سودی تعامل اور کاروبار بالکل حرام ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1655، ومصباح الزجاجة: 855) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں عتبہ بن حمید الضبی ضعیف ہیں، اور یحییٰ بن أبی اسحاق الہنائی مجہول الحال، تراجع الألبانی: رقم: 329)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
عتبة ليس شاميًا ورواية إسماعيل بن عياش عن غير الشامين ضعيفة
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 466

   سنن ابن ماجه2432أنس بن مالكإذا أقرض أحدكم قرضا فأهدى له أو حمله على الدابة فلا يركبها ولا يقبله إلا أن يكون جرى بينه وبينه قبل ذلك


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.