(مرفوع) حدثنا محمد بن خلف العسقلاني ، حدثنا يعلى ، حدثنا سليمان بن يسير ، عن قيس بن رومي ، قال: كان سليمان بن اذنان يقرض علقمة الف درهم إلى عطائه، فلما خرج عطاؤه تقاضاها منه واشتد عليه، فقضاه، فكان علقمة غضب، فمكث اشهرا ثم اتاه، فقال: اقرضني الف درهم إلى عطائي، قال: نعم، وكرامة يا ام عتبة! هلمي تلك الخريطة المختومة التي عندك فجاءت بها، فقال: اما والله إنها لدراهمك التي قضيتني ما حركت منها درهما واحدا، قال: فلله ابوك! ما حملك على ما فعلت بي؟ قال: ما سمعت منك، قال: ما سمعت مني؟ قال: سمعتك تذكر عن ابن مسعود ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ما من مسلم يقرض مسلما قرضا مرتين إلا كان كصدقتها مرة"، قال: كذلك انباني ابن مسعود. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ ، حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ يَسِيرٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ رُومِيٍّ ، قَالَ: كَانَ سُلَيْمَانُ بْنُ أُذُنَانٍ يُقْرِضُ عَلْقَمَةَ أَلْفَ دِرْهَمٍ إِلَى عَطَائِهِ، فَلَمَّا خَرَجَ عَطَاؤُهُ تَقَاضَاهَا مِنْهُ وَاشْتَدَّ عَلَيْهِ، فَقَضَاهُ، فَكَأَنَّ عَلْقَمَةَ غَضِبَ، فَمَكَثَ أَشْهُرًا ثُمَّ أَتَاهُ، فَقَالَ: أَقْرِضْنِي أَلْفَ دِرْهَمٍ إِلَى عَطَائِي، قَالَ: نَعَمْ، وَكَرَامَةً يَا أُمَّ عُتْبَةَ! هَلُمِّي تِلْكَ الْخَرِيطَةَ الْمَخْتُومَةَ الَّتِي عِنْدَكِ فَجَاءَتْ بِهَا، فَقَالَ: أَمَا وَاللَّهِ إِنَّهَا لَدَرَاهِمُكَ الَّتِي قَضَيْتَنِي مَا حَرَّكْتُ مِنْهَا دِرْهَمًا وَاحِدًا، قَالَ: فَلِلَّهِ أَبُوكَ! مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ بِي؟ قَالَ: مَا سَمِعْتُ مِنْكَ، قَالَ: مَا سَمِعْتَ مِنِّي؟ قَالَ: سَمِعْتُكَ تَذْكُرُ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُقْرِضُ مُسْلِمًا قَرْضًا مَرَّتَيْنِ إِلَّا كَانَ كَصَدَقَتِهَا مَرَّةً"، قَالَ: كَذَلِكَ أَنْبَأَنِي ابْنُ مَسْعُودٍ.
قیس بن رومی کہتے ہیں کہ سلیمان بن اذنان نے علقمہ کو ان کی تنخواہ ملنے تک کے لیے ایک ہزار درہم قرض دے رکھا تھا، جب ان کی تنخواہ ملی تو سلیمان نے ان سے اپنے قرض کا تقاضا کیا، اور ان پر سختی کی، تو علقمہ نے اسے ادا کر دیا، لیکن ایسا لگا کہ علقمہ ناراض ہیں، پھر کچھ مہینے گزرے تو پھر وہ سلیمان بن اذنان کے پاس آئے، اور کہا: میری تنخواہ ملنے تک مجھے ایک ہزار درہم کا پھر قرض دے دیجئیے، وہ بولے: ہاں، لے لو، یہ میرے لیے عزت کی بات ہے، اور ام عتبہ کو پکار کر کہا: وہ مہر بند تھیلی لے آؤ جو تمہارے پاس ہے، وہ اسے لے آئیں، تو انہوں نے کہا: دیکھو اللہ کی قسم! یہ تو وہی درہم ہیں جو تم نے مجھے ادا کئے تھے، میں نے اس میں سے ایک درہم بھی ادھر ادھر نہیں کیا ہے، علقمہ بولے: تمہارے باپ عظیم ہیں پھر تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا تھا؟ ۱؎ وہ بولے: اس حدیث کی وجہ سے جو میں نے آپ سے سنی تھی، انہوں نے پوچھا: تم نے مجھ سے کیا سنا تھا؟ وہ بولے: میں نے آپ سے سنا تھا، آپ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”کوئی مسلمان ایسا نہیں جو کسی مسلمان کو دوبار قرض دے، مگر اس کو ایک بار اتنے ہی مال کے صدقے کا ثواب ملے گا“، علقمہ نے کہا: ہاں، مجھے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایسے ہی خبر دی ہے۔
وضاحت: ۱؎: یہ تعریفی کلمہ ہے۔ یعنی جب تمہیں ان کی ضرورت نہیں تھی تو پھر تم نے مجھ سے اتنی سختی سے کیوں مطالبہ کیا تھا۔ تو ہر بار قرض میں آدھے صدقہ کا ثواب ہے، دوبارہ قرض دے تو گویا اتنا کل مال صدقہ دیا۔ اسی وجہ سے سلیمان نے سخت تقاضا کر کے اپنا قرض وصول کر لیا تاکہ علقمہ کو دوبارہ قرض لینے کی ضرورت ہو اور ان کا ثواب زیادہ ہو، سبحان اللہ، اگلے لوگ ثواب کے کیسے حریص اور طالب تھے، آگے حدیث میں ہے کہ قرض میں صدقہ سے زیادہ ثواب ہے، یہ حدیث بظاہر اس کے مخالف ہے اور ممکن ہے کہ یہ حدیث مطلق قرض میں ہو اور وہ اس قرض میں جس میں مقروض سے تقاضا نہ کرے یا جو سخت ضرورت کے وقت دے۔ واللہ اعلم۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9475، ومصباح الزجاجة: 853) (ضعیف)» (سند میں قیس بن رومی مجہول، اور سلیمان بن یسیر ضعیف ہیں، اس لئے یہ ضعیف ہے، مرفوع حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1389)
قال الشيخ الألباني: ضعيف إلا المرفوع منه فحسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف سليمان بن يسير: ضعيف (تقريب: 2620) قيس بن رومي: مجھول (تقريب: 5574) وللحديث شاھد ضعيف عند أحمد (1/ 412) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 466