انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے زیادہ فکرمندی اس مومن کو ہوتی ہے جسے دنیا کی بھی فکر ہو اور آخرت کی بھی“۔ ابوعبداللہ (ابن ماجہ) کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اس لیے کہ اسماعیل اس کی روایت میں منفرد ہیں۔
وضاحت: ۱؎: بے دین آدمی کو آخرت سے کوئی غرض اور دلچسپی نہیں، اسے تو صرف دنیا کی فکر ہے، اور جو کچا مسلمان ہے اس کو دونوں فکریں لگی ہوتی ہیں، کیونکہ اللہ تعالی پر اس کو پورا بھروسہ اور اعتماد نہیں ہے، اور جو پکا مسلمان ہے اس کو فقط آخرت کی ہی فکر ہے، اور دنیا کی زیادہ فکر نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ رازق اور مسبب الاسباب ہے، جب تک زندگی ہے، وہ کہیں سے ضرور کھلائے اور پلائے گا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1684، ومصباح الزجاجة: 758) (ضعیف)» (سند میں یزید الرقاشی، حسن بن محمد اور اسماعیل بن بہرام تینوں ضعیف ہیں)
It was narrated from Anas bin Malik that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
The one who has the most concerns is the believer who is concerned about both his worldly affairs and his Hereafter."' (Da'if)Abu 'Abdullah said: "This Hadith is Gharib' Isma'il, alone, has narrated it."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف فيه علل منھا ضعف يزيد الرقاشي: زاهد ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 456
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2143
اردو حاشہ: فائده: یہ روایت ضعیف ہے، تاہم یہ بات صحیح ہے کہ مومن کو سب سے زیادہ فکر آخرت کے معاملات کی ہوتی ہے اور اسی کو وہ سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اگر اس کے پاس دنیا کے وسائل کی کمی بھی ہو تو وہ اس کی فکر میں کرتا، لیکن کافر کو صرف دنیا کا خیال ہوتا ہے کیونکہ اسے آخرت پر یقین نہیں ہوتا، جب کہ کمزور ایمان والا مومن دنیا کے معاملات میں بھی پریشان رہتا ہے اور اسےآخرت ملنے یا نیکیوں میں پیچے رہ جانے کا خوف بھی ہوتا ہے۔ اس طرح وہ دو قسم کی پریشانیاں لیے پھرتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2143