Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب التجارات
کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
2. بَابُ : الاِقْتِصَادِ فِي طَلَبِ الْمَعِيشَةِ
باب: روزی کمانے میں میانہ روی اپنانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2143
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ بِهْرَامٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُثْمَانَ زَوْجُ بِنْتِ الشَّعْبِيِّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَعْظَمُ النَّاسِ هَمًّا الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَهُمُّ بِأَمْرِ دُنْيَاهُ وَأَمْرِ آخِرَتِهِ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ تَفَرَّدَ بِهِ إِسْمَاعِيل.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے زیادہ فکرمندی اس مومن کو ہوتی ہے جسے دنیا کی بھی فکر ہو اور آخرت کی بھی۔ ابوعبداللہ (ابن ماجہ) کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اس لیے کہ اسماعیل اس کی روایت میں منفرد ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1684، ومصباح الزجاجة: 758) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں یزید الرقاشی، حسن بن محمد اور اسماعیل بن بہرام تینوں ضعیف ہیں)

وضاحت: ۱؎: بے دین آدمی کو آخرت سے کوئی غرض اور دلچسپی نہیں، اسے تو صرف دنیا کی فکر ہے، اور جو کچا مسلمان ہے اس کو دونوں فکریں لگی ہوتی ہیں، کیونکہ اللہ تعالی پر اس کو پورا بھروسہ اور اعتماد نہیں ہے، اور جو پکا مسلمان ہے اس کو فقط آخرت کی ہی فکر ہے، اور دنیا کی زیادہ فکر نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ رازق اور مسبب الاسباب ہے، جب تک زندگی ہے، وہ کہیں سے ضرور کھلائے اور پلائے گا۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
فيه علل منھا ضعف يزيد الرقاشي: زاهد ضعيف
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 456

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2143 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2143  
اردو حاشہ:
فائده:
یہ روایت ضعیف ہے، تاہم یہ بات صحیح ہے کہ مومن کو سب سے زیادہ فکر آخرت کے معاملات کی ہوتی ہے اور اسی کو وہ سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
اگر اس کے پاس دنیا کے وسائل کی کمی بھی ہو تو وہ اس کی فکر میں کرتا، لیکن کافر کو صرف دنیا کا خیال ہوتا ہے کیونکہ اسے آخرت پر یقین نہیں ہوتا، جب کہ کمزور ایمان والا مومن دنیا کے معاملات میں بھی پریشان رہتا ہے اور اسےآخرت ملنے یا نیکیوں میں پیچے رہ جانے کا خوف بھی ہوتا ہے۔
اس طرح وہ دو قسم کی پریشانیاں لیے پھرتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2143