ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم یوں ہوتی تھی: «لا وأستغفر الله»”ایسا نہیں ہے، اور میں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: لغو وہ قسم ہے جو آدمی کی زبان پر بے قصد و ارادہ جاری ہو جائے، اس سے کوئی کفارہ لازم نہیں آتا، یہ قسمیں آپ کی اسی قبیل سے ہوتیں مگر اس سے بھی آپ ﷺ نے استغفار کیا تاکہ امت کے لوگ اس سے بھی پرہیز کریں، صحیح بخاری میں ہے کہ اکثر آپ ﷺ یوں قسم کھاتے تھے: «لا ومقلب القلوب» اور صحیحین میں ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: «وأيم الله إن كان لخليقاً للإمارة» یعنی، اللہ کی قسم! زید بن حارثہ امیر ہونے کے لائق تھا، اور جبریل علیہ السلام نے اللہ سے کہا: رب تیری عزت کی قسم، جو کوئی اس کو سن پائے گا، وہ جنت میں جائے گا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأیمان والنذور 12 (3265)، (تحفة الأشراف: 14802)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/288) (ضعیف)» (سند میں محمد بن ہلال اور ان کے والد دونوں مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو: المشکاة: 3423)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2093
اردو حاشہ: فائدہ: مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے اور یہ جملہ قسم نہیں بلکہ قسم سے مشابہ ہے اس کی اصل یہ ہو سکتی ہے: «لَاوَالله، وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ»(بذل المجھود)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2093
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3265
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کیسی ہوتی تھی؟` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قسم کھاتے تو فرماتے: «لا، وأستغفر الله»”نہیں، قسم ہے میں اللہ سے بخشش اور مغفرت کا طلب گار ہوں۔“[سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3265]
فوائد ومسائل: روایت ضیعف ہے۔ اور یہ جملہ قسم نہیں بلکہ قسم سے مشابہ ہے۔ اس کی اصل یہ ہوسکتی ہے۔ (لا واللہ استغفراللہ)(بزل المجہود)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3265