(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عطاء بن السائب ، عن ابي عبد الرحمن ، ان رجلا امره ابوه او امه شك شعبة، ان يطلق امراته، فجعل عليه مائة محرر، فاتى ابا الدرداء، فإذا هو يصلي الضحى ويطيلها وصلى ما بين الظهر والعصر، فساله، فقال ابو الدرداء: اوف بنذرك وبر والديك، وقال ابو الدرداء : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" الوالد اوسط ابواب الجنة فحافظ على والديك او اترك". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ رَجُلًا أَمَرَهُ أَبُوهُ أَوْ أُمُّهُ شَكَّ شُعْبَةُ، أَنْ يُطَلِّقَ امْرَأَتَهُ، فَجَعَلَ عَلَيْهِ مِائَةَ مُحَرَّرٍ، فَأَتَى أَبَا الدَّرْدَاءِ، فَإِذَا هُوَ يُصَلِّي الضُّحَى وَيُطِيلُهَا وَصَلَّى مَا بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: أَوْفِ بِنَذْرِكَ وَبِرَّ وَالِدَيْكَ، وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ فَحَافِظْ عَلَى وَالِدَيْكَ أَوِ اتْرُكْ".
ابوعبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ایک شخص کو اس کی ماں نے یا باپ نے (یہ شک شعبہ کو ہوا ہے) حکم دیا کہ اپنی بیوی کو طلاق دیدے، اس نے نذر مان لی کہ اگر اپنی بیوی کو طلاق دیدے تو اسے سو غلام آزاد کرنا ہوں گے، پھر وہ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، وہ صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) پڑھ رہے تھے، اور اسے خوب لمبی کر رہے تھے، اور انہوں نے نماز پڑھی ظہر و عصر کے درمیان، بالآخر اس شخص نے ان سے پوچھا، تو ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: اپنی نذر پوری کرو، اور اپنے ماں باپ کی اطاعت کرو۔ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”باپ جنت میں جانے کا بہترین دروازہ ہے، اب تم اپنے والدین کے حکم کی پابندی کرو، یا اسے نظر انداز کر دو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ ماں باپ کی اطاعت ایسی عمدہ چیز ہے، جن کی اطاعت سے جنت ملتی ہے، اور ظاہر ہے کہ جنت کی آدمی کو کتنی فکر ہونی چاہئے، پس ویسے ہی ماں باپ کی اطاعت کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البر و الصلة 3 (1900)، (تحفة الأشراف: 10948)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/196، 197، 6/445، 447، 451) (صحیح)»
It was narrated from 'Abdur-Rahman that:
a man's father or mother - Shu'bah (one of the namators) was not sure - ordered him to divorce his wife, and he made a vow that he would free one hundred slaves if he did that. He came to Abu Darda' while he was praying the Duha, and he was making his prayer lengthy, and he prayed between Zuhr and 'Asr. Then he asked him and Abu Darda' said: "Fulfill your vow and honor your parents." Abu Ad-Darda' said: "I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: '(Honoring) one's father may lead one to enter through the best of the gates of Paradise; so take care of your parents, (it is so, whether you take care of them) or not. "
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2089
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) والدین کی خدمت و اطاعت جنت میں داخلے کا ذریعہ ہے۔
(2) والدین کو خوش رکھنا جنت میں جانے بہترین ذریعہ ہے۔
(3) مومن کو جنت کی بہت خواہش ہوتی ہے، اس لیے والدین کی اطاعت کا بہت خیال رکھنا چاہیے تا کہ جنت مل سکے۔ 4: والدین اگر کسی ایسے کام كاحکم دیں جو شرعاً جائز ہو تو اس کی تعمیل کرنی چاہیے، خواہ وہ دل کو ناگوار ہی لگے، لیکن والدین کو بھی چاہیے کہ اولاد کے جائز جذبات كا لحاظ رکھیں۔
(5) صحابہ کرام نفلی عبادات کا بہت شوق رکھتے تھے، اسی لیے برداشت کے مطابق نفلی عبادات کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے بشرطیکہ اس سے حقوق العباد میں خلل نہ پڑے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2089
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3663
´ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا بیان۔` ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، چاہے تم اس دروازے کو ضائع کر دو، یا اس کی حفاظت کرو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3663]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) والد کی خدمت جنت میں داخل ہونے کا اہم ذریعہ ہے۔
(2) ضائع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر والد کو ناراض کرو گے تو تمہارے لیے جنت کا دروازہ نہیں کھلے گا اس طرح تم جنت کا دروازہ کھو بیٹھو گے۔
(3) محفوظ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ والد کو خوش کرو گے تو جنت کا دروازہ تمہارے لیے ضرور کھل جائے گا۔
(4) اگر والد کسی ایسے کام کا حکم دے جس میں اللہ کی ناراضی ہے تو والد کی اطاعت کرنا جائز نہیں البتہ اس صورت میں بھی والد کی خدمت اور احترام ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3663