(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا شريك ، عن العباس بن ذريح ، عن البهي ، عن عائشة ، قالت: عثر اسامة بعتبة الباب فشج في وجهه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اميطي عنه الاذى فتقذرته، فجعل يمص عنه الدم ويمجه عن وجهه، ثم قال لو كان اسامة جارية لحليته، وكسوته حتى انفقه". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ ذُرَيْحٍ ، عَنِ الْبَهِيِّ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: عَثَرَ أُسَامَةُ بِعَتَبَةِ الْبَابِ فَشُجَّ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمِيطِي عَنْهُ الْأَذَى فَتَقَذَّرْتُهُ، فَجَعَلَ يَمُصُّ عَنْهُ الدَّمَ وَيَمُجُّهُ عَنْ وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ لَوْ كَانَ أُسَامَةُ جَارِيَةً لَحَلَّيْتُهُ، وَكَسَوْتُهُ حَتَّى أُنَفِّقَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسامہ رضی اللہ عنہ دروازہ کی چوکھٹ پر گر پڑے، جس سے ان کے چہرے پہ زخم ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”ان سے خون صاف کرو“، میں نے اسے ناپسند کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے زخم سے خون نچوڑنے اور ان کے منہ سے صاف کرنے لگے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اسامہ لڑکی ہوتا تو میں اسے زیورات اور کپڑوں سے اس طرح سنوارتا کہ اس کا چرچا ہونے لگتا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کو زیور اور لباس سے آراستہ کرنا جائز ہے بلکہ نکاح کے وقت مستحب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16296، ومصباح الزجاجة: 700)، وقد أخرجہ: 6/139، 222) (صحیح)»
It was narrated that 'Aishah said:
"Usamah stumbled at the threshold of the door and cut his face. The Messenger of Allah said: 'Remove the harm (the blood) from him,' but I was repulsed by that. He started to suck the blood and remove it from his face, then he said: 'If Usamah were a girl, I would have adorned him and dressed him until I married him off."'
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف شريك عنعن وتابعه مجالد وھو ضعيف وفي سماع البهي من عائشة رضي اﷲ عنها كلام وللحديث شاهد مرسل عند ابن سعد (62/4) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 449
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1976
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے دیگر شواہد کی بناپر حسن اور صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 42/ 7، 8 والصحیحة، رقم: 1019، وسنن ابن ماجة، بتحقیق الدکتور بشار عواد، حدیث: 1972) بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
(2) بچوں سے پیار محبت کا سلوک کرنا چاہیے۔
(3) اگر بچوں کو کوئی تکلیف ہو یاچوٹ لگ جائے تو انہیں ڈانٹنے کے بجائے تسلی دینا اور بہلانا چاہیے۔
(3) بچیوں کو زیور اور عمدہ کپڑے پہنانا جائز ہے لیکن اس کی بہت زیادہ عادت نہیں ڈالنی چاہیے تاکہ سادگی کی طرف میلان رہے، البتہ شادی بیاہ یا عید وغیرہ کے موقع پر بہتر لباس پہننے اور مناسب حد تک زیب و زینت میں کوئی حرج نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1976