سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
The Chapters on Marriage
48. بَابُ : الْمَرْأَةِ تَهَبُ يَوْمَهَا لِصَاحِبَتِهَا
48. باب: عورت کا اپنی باری سوکن کو ہبہ کرنے کا بیان۔
Chapter: A woman giving her day to her co-wife
حدیث نمبر: 1972
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عقبة بن خالد . ح وحدثنا محمد بن الصباح ، انبانا عبد العزيز بن محمد جميعا، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت:" لما كبرت سودة بنت زمعة وهبت يومها لعائشة، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقسم لعائشة بيوم سودة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ جَمِيعًا، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:" لَمَّا كَبِرَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ وَهَبَتْ يَوْمَهَا لِعَائِشَةَ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ لِعَائِشَةَ بِيَوْمِ سَوْدَةَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ام المؤمنین سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا بوڑھی ہو گئیں، تو انہوں نے اپنی باری کا دن عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دیا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سودہ رضی اللہ عنہا کی باری والے دن عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہتے تھے۔

تخریج الحدیث: «حدیث أبي بکر أخرجہ: صحیح مسلم/النکاح 14 (1463)، (تحفة الأشراف: 17101)، وحدیث محمد بن الصبَّاح تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17039)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الھبة 15 (2593)، النکاح 99 (5212)، سنن ابی داود/النکاح 39 (2135)، مسند احمد (6/ 107) (صحیح)» ‏‏‏‏

'Urwah narrated from 'Aishah: that when Saudah bint Zam'ah grew old, she gave her day to 'Aishah, and the Messenger of Allah went to 'Aishah on Saudah's day.
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   صحيح البخاري5212عائشة بنت عبد اللهيقسم لعائشة بيومها ويوم سودة
   صحيح مسلم3629عائشة بنت عبد اللهيقسم لعائشة يومين يومها ويوم سودة
   سنن أبي داود2135عائشة بنت عبد اللهلا يفضل بعضنا على بعض في القسم من مكثه عندنا وكان قل يوم إلا وهو يطوف علينا جميعا فيدنو من كل امرأة من غير مسيس حتى يبلغ إلى التي هو يومها فيبيت عندها لقد قالت سودة بنت زمعة حين أسنت وفرقت أن يفارقها رسول الله يا رسول الله يومي لعائشة
   سنن ابن ماجه1972عائشة بنت عبد اللهيقسم لعائشة بيوم سودة
   بلوغ المرام909عائشة بنت عبد اللهيقسم لعائشة يومها ويوم سودة

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1972 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1972  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  خاوند کا باری کے مطابق اپنی بیوی کے ہاں رات گزارنا عورت کا حق ہے، اسی لیے وہ اپنے حق سے دست بردار بھی ہو سکتی ہے اور اپنا حق کسی اور کو بھی دے سکتی ہے۔

(2)
باری چھوڑ دینے کا مطلب یہ نہیں کہ عورت کے تمام حقوق ساقط ہو گئے۔
مذکورہ صورت میں مرد کو چاہیے کہ دیگر حقوق کی ادائیگی کا خاص خیال رکھے۔

(3)
رسول اللہ ﷺ پر باری کے مطابق بیویوں کے پاس رہنا فرض نہیں تھا۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿تُرْ‌جِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ﴾ (الأحزاب: 51)
 ان میں سےجسے توچاہے دور رکھ دے اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے۔
اور اگر تو ان میں سے کسی کو اپنے پاس بلا ئے جنھیں تو نے الگ کر رکھا تھا تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں۔
 اس کے باوجود نبی ﷺ باری کا اہتمام فرماتے تھے۔
یہ آپ ﷺ کا کمال حسن خلق ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1972   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 909  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری کا دن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے ان کا اپنا دن بھی اور سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا دن بھی تقسیم کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 909»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب المرأة تهب يومها من زوجها لضرتها....، حديث:5212، ومسلم، الرضاع، باب جواز هبتها نوبتها لضرتها، حديث:1463.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کوئی بیوی اپنی باری دوسری بیوی کو دے سکتی ہے۔
یہ بخشش ناقابل رجوع اور ناقابل واپسی ہوگی بشرطیکہ ایام کی تعیین نہ کی گئی ہو۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 909   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3629  
حضرت عائشہ رضی اللہتعالی عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے کسی عورت کو نہیں دیکھا، جس جیسا میں ہونا پسند کرتی، سوائے حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے۔ وہ ایک ایسی عورت تھی جس میں تیزی (حدت) تھی یعنی وہ گرم مزاج تھیں۔ جب وہ بوڑھی ہو گئیں تو اس نے اپنی باری جو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل تھی، مجھے دے دی۔ اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی باری عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دی،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3629]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
مَسْلاَخٌ:
جلد،
چمڑا یعنی میری آرزو اور تمنا یہ تھی۔
میں ان جیسی ہو جاؤں،
کیونکہ وہ انتہائی متین اور سنجیدہ تھیں،
نہایت سخی اور صابرہ وعبادت گزار تھیں۔
فوائد ومسائل:
حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے محسوس کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے طلاق دے دیں گے اور واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی،
اور پھر ان کی خواہش پر کہ میں چاہتی ہوں کہ میں قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں اٹھوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجوع فرما لیا شاید اس کی یہ حکمت ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عملاً اس آیت مبارکہ کی تفسیر بیان کرنا چاہتے تھے کہ اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی زیادتی یا روگردانی کا خطرہ ہو تو ان دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ آپس میں صلح کر لیں (نساء: 9۔
178)

نیز عملاً طلاق دینے اور رجوع کرنے کا امت کے لیے اسوہ چھوڑیں کیونکہ معلم کتاب تھے۔
چونکہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کبرسنی کی بنا پر مردوں کی خواہش نہیں رہی تھی۔
اس لیے انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دی کیونکہ وہ محبوبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھیں۔
جس سے معلوم ہوا عورت اپنی باری اپنی سوکن کو دے سکتی ہےکیونکہ یہ اس کا حق ہے لیکن خاوند کی رضا مندی ضروری ہے۔
اگرخاوند کوباری چھوڑ دے تو پھر خاوند جس کو چاہے دے سکتا ہے۔
شوافع اور حنابلہ کا یہی مؤقف ہے اور احناف میں علامہ ابن الہمام اور شامی نے اس مؤقف کو اختیار کیا ہے لیکن اگردونوں کا دن متصل نہ ہو تو باقی ازواج کی رضا کے بغیر اس کومتصل نہیں کیا جا سکتا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3629   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5212  
5212. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ سیدہ سودہ بنت زمعہ‬ ؓ ن‬ے اپنی باری سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے لیے ہبہ کر دی تھی اور نبی ﷺ سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس خود ان کی باری کے دن اور سیدہ سودہ‬ ؓ ک‬ی باری کے دن رہتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5212]
حدیث حاشیہ:
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے بڑھاپے میں ایسا کر دیا تھا تا کہ کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم طلاق نہ دے دیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5212   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5212  
5212. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ سیدہ سودہ بنت زمعہ‬ ؓ ن‬ے اپنی باری سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے لیے ہبہ کر دی تھی اور نبی ﷺ سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس خود ان کی باری کے دن اور سیدہ سودہ‬ ؓ ک‬ی باری کے دن رہتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5212]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں وضاحت ہے کہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا جب عمر رسیدہ ہو گئیں اور انھیں خطرہ محسوس ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں اپنے سے جدا کر دیں گے تو انھوں نے کہا:
اللہ کے رسول! میں اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیتی ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست کو شرف قبولیت سے نوازا۔
(سنن أبی داود، النکاح، حدیث: 2135) (2)
جب کوئی اپنی باری کا دن سوکن کو ہبہ کر دے تو اسے وہی دن ملے گا جو اس کی باری کا ہے۔
اگر اس کے متصل ہے تو مسلسل دو دن اس کے ہوں گے، بصورت دیگر ان دنوں میں فاصلہ ہوگا۔
اگر باقی بیویاں اگلے دنوں پر راضی ہوں تو اسے اکٹھے دو دن بھی مل سکتے ہیں۔
(فتح الباري: 388/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5212   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.